شازیہ نور
سعد بھائی کی شادی میں چاند میاں کو شہ بالا بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر چاند میاں پریشان تھے کہ شہ بالا ہوتا کیا ہے۔
’’امی! یہ شہ بالا کیا ہوتا ہے؟‘‘چاند میاں نے پوچھا۔
’’بیٹا! شہ بالا چھوٹا دولھا ہوتا ہے۔‘‘امی نے آسان الفاظ میں بتایا۔
’’اچھا تو مجھے چھوٹا دولھا بنائیں گے تو چھوٹی دلھن کہاں سے لائیں گے۔‘‘
چاند میاں نے پھر سوال کر ڈالا۔
’’شہ بالے کی دلھن نہیں ہوتی بس وہ دولھا بنتا ہے۔
’’امی نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تو پھر دولھا بناتے کیوں ہیں؟‘‘چاند میاں آنکھیں نچا کر بولے۔
’’بھئی چھوٹا دولھا دیکھ کر سب خوش ہوتے ہیں نا، اسی لیے بناتے ہیں۔‘‘ابو نے کہا۔
’’تو چھوٹی دلھن کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتے کیا؟‘‘چاند میاں نے پھر سوال کر ڈالا۔
ابو مسکراتے ہوئے اٹھے۔ ’’چلیں چاند میاں پہلے نماز پڑھ آتے ہیں، چھوٹی دلھن بعد میں ڈھونڈیں گے۔‘‘ابو نے چاند میاں کا دھیان بٹانے کے لیے کہا۔
٭…٭
دولھا میاں کے ساتھ ساتھ چاند میاں کو شہ بالا بنانے کے لیے پوری تیاری کی گئی۔ ان کی شیروانی، پاجامہ اور کلاہ بھی خریدا گیا۔ چاند میاں اپنی چیزیں دیکھ کر بہت خوش تھے اور سب لوگ چاند میاں کی خوشی دیکھ کر خوش تھے۔
شادی والے دن چاند میاں دولھا میاں سے بھی پہلے دولھا بن کر تیار کھڑے تھے۔ امی اور ابو نے ان کو تیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ امی کو ڈر
لگ رہا تھا کہ کہیں چاند میاں کو نظر نہ لگ جائے۔ وہ دعائیں اور سورتیں پڑھ کر کئی بار چاند میاں پر دَم کر چکی تھیں۔
’’امی! آج آپ مجھے بار بار کیوں دَم کر رہی ہیں؟‘‘چاند میاں نے پوچھا۔
’’میرا چاند آج چودھویں کا چاند جو لگ رہا ہے، اِس لیے نظر سے بچانے کے لیے دَم کر رہی ہوں۔‘‘
’’کس کی نظر سے بچانے کے لیے؟‘‘ چاند میاں نے معصومیت سے پوچھا۔
’’کسی کی بھی بری نظر سے بچانے کے لیے، اور اپنی نظر سے بچانے کے لیے بھی۔‘‘ امی نے اُن کا کلاہ درست کرتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ تو بار بار مجھ پر نظر ڈال رہی ہیں، پھر آپ کی نظر سے کیسے بچوں گا؟‘‘
’’اللہ میاں بچاتے ہیں، بری نظر لگنے سے۔‘‘ امی نے کہا۔
’’آپ کی نظر تو اچھی نظر ہے امی!‘‘
چاند میاں امی جان کی بانہوں میں سما کر بولے۔
امی ہنس پڑیں اور بے اختیار چاند میاں کا ماتھا چومنے لگیں۔
دولھا سمیت سب لوگ تیار تھے۔ آخر بارات روانہ ہوئی اور مقررہ وقت پر پہنچ گئی۔ نکاح پڑھایا گیا اور چھوہارے وغیرہ تقسیم کیے گئے، چاند میاں ساری کاروائی خوب غور سے دیکھتے رہے، جب لوگ ’’نکاح مبارک ہو، نکاح مبارک ہو کہہ رہے تھے تو چاند میاں کو سمجھ میں آگیا کہ یہ نکاح ہوا ہے۔ سب لوگ دولھا سے زیادہ چاند میاں کی تعریف کر رہے تھے اور چاند میاں پھولے نہیں سما رہے تھے۔
’’چاند میاں آج تو ما شاء اللہ آپ ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔‘‘
چاند میاں کے خالو نے ہنس کر کہا۔
’’مگر میں تو کرسی پر بیٹھا ہوں خالو جان!‘‘
’’واہ میاں سبحان اللہ!‘‘ خالو چاند میاں کا جواب سن کر بولے۔
’’میں واہ میاں نہیں،چاند میاں ہوں خالو جان!‘‘
چاند میاں نے برجستہ جواب دیا۔
خالو تو اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کئی لوگوں نے دولھا کے ساتھ ساتھ چاند میاں کو بھی سلامیاں دیں۔ پانچ، چھے لفافے اُن کے پاس جمع ہوگئے تھے اور اب تو چاند میاں بہت خوش نظر آرہے تھے۔ انھوں نے دولھا بھائی سے پوچھا:
’’بھائی جان! آپ کے پاس جو پیسے جمع ہوئے ہیں اس کا آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’میں تو امی جان کو دے دوں گا۔‘‘
سعد بھائی نے چاند میاں کے لفافوں پر نگاہ ڈال کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مگر بھائی جان! شادی تو آپ کی ہوئی ہے پھر پیسے آپ امی کو کیوں دیں گے؟‘‘
چاند میاں نے حیرت سے پوچھا: ’’ارے بھائی سارا خرچہ تو امی ابو نے ہی کیا ہے نا اِس لیے میں سارے پیسے ان کو دے دوں گا۔‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے میں سمجھ گیا یعنی امی ابو نے آپ کو ادھار پیسے دیے تھے۔‘‘
چاند میاں معاملہ سمجھنا چاہ رہے تھے۔
’’ہاں بھئی یہی سمجھ لو۔‘‘
بھائی جان نے چاند میاں سے یہ سب اِس لیے کہا تاکہ وہ بھی لفافے اپنی امی کو پکڑا دیں۔ شادی کا دن تو گزر گیا۔ چاند میاں خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ اگلے دن ولیمہ تھا اور سعد بھائی آج پھر تیار ہورہے تھے۔
’’سعد بھائی! آپ آج پھر سے تیار ہوں گے؟‘‘
چاند میاں نے اُن کے نئے کپڑے اور جوتوں پرنگاہ ڈال کر کہا۔
’’ہاں بھئی آج ولیمہ ہے ناں، اِس لیے آج بھی دولھا بننا پڑے گا۔‘‘
سعد بھائی چامد میاں کے بالوں شفقت سے میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولے۔
چاند میاں نے جو یہ سنا تو پہنچ گئے امی ابو کے پاس۔ امی کمرے میں سب بچوں کے اور ابو کے کپڑے الگ کر کے دے رہی تھیں۔
’’امی یہ لیجیے کل کا خرچہ!‘‘چاند میاں نے کل جو پیسوں کے لفافے ملے تھے الماری میں رکھ دیے تھے اب وہ سب امی کو تھما دیے۔
’’خرچہ کون سا بیٹا؟‘‘امی واقعی نہیں سمجھی تھیں۔
’’وہ امی آپ نے مجھے دولھا بنانے کے لیے پیسے خرچ کیے تھے نا، اس کا خرچہ، اور اب آپ مجھے جلدی سے دوبارہ دولھا کی طرح بنا دیں۔‘‘
’’دولھا کی طرح؟ مگر کیوں بیٹا۔‘‘امی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’امی سعد بھائی بھی تو آج دوبارہ سے دولھا بننے والے ہیں۔‘‘ چاند میاں بولے۔
’’او اچھا مگر بھئی سعد بھائی کا تو آج ولیمہ ہے ناں‘‘ امی نے سمجھایا
’’تو میں نے بھی ولیمے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘
چاند میاں ولیمے پر زور دے کر بولے۔
’’آپ کا ولیمہ کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟ آپ کا تو نکاح ہی نہیں ہوا۔‘‘ آپا نے مزاح کے طور پر کہا۔ ’’جی جی مجھے معلوم ہے، میں نے مسجد کے قاری صاحب سے سنا تھا کہ نکاح کرنا سنت ہے اور ولیمہ کرنا بھی سنت ہے، کل آپ لوگوں نے میرا نکاح تو کرایا نہیں تو اب آج ولیمہ کی سنت تو پوری کرنے دیں، ورنہ دونوں سنتیں چھوڑنے کا کتنا گناہ ہوگا۔‘‘
چاند میاں کا جواب سن کر کمرے میں موجود سب لوگ بے اختیار ہنس ہڑے اور ابو کی آنکھوں میں تارے جھلملانے لگے۔