Promise

انداز اپنا اپنا

پروفیسر محمد اسلم بیگ۔ اسلام آباد

کسی بزرگ کا قول ہے:

’’نیک لوگوں کی صحبت سے ہمیشہ بھلائی ملتی ہے، کیونکہ جب ہوا پھولوں سے گزرتی ہے تو وہ بھی خوشبو دار ہوجاتی ہے۔‘‘
بزرگوں کی صحبت ایک بڑی نعمت ہے۔ اس میں نفع ہی نفع ہے۔ اللہ والوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں، البتہ موقع محل، وقت، اپنے مزاج، شرکائے محفل کے مزاج اور تعداد کے مطابق کوئی بزرگ تربیت کا ایک انداز اختیار کرتا ہے اور کوئی بزرگ دوسرا۔ مقصد اور نیت اپنے عقیدت مندوں کی اصلاح ہی ہوتی ہے، لہٰذا اللہ والے بزرگ ہماری تربیت اور اصلاح کا جو بھی طریقہ یا انداز اختیار کریں، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اس قسم کی دو محفلوں میں شرکت کرنے کی مجھے بھی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ سوچا آپ کو بھی اس میں شریک کر لوں:

کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے۔ ایک بڑے بزرگ اور روحانی رہنما کی نجی محفل میں اُن کے چند مرید اور عقیدت مند بیٹھے اُن کی زیارت اور اُن کے ارشادات سے فیض یاب ہورہے تھے۔ اتنی دیر میں دسترخوان بچھایا گیا۔ سب کے ہاتھ دھلائے گئے۔ کھانا شروع ہوا۔ کھانے میں گوشت بھی تھا۔ بابرکت ہونے کے ساتھ ساتھ کھانا مزے دار بھی تھا۔ سب لوگوں نے جی بھر کر کھانا کھایا۔ ایک نوجوان عقیدت مند نے اپنی پلیٹ صاف کی، لیکن ہڈی میں لگا ہوا گوشت ہاتھوں سے جتنا کھایا جاسکتا تھا کھا کر باقی گوشت لگی ہڈی پلیٹ میں چھوڑ دی۔

بزرگ کی نظر اپنے سب عقیدت مندوں پر تھی کہ انھیں ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا تھی۔ بزرگ نے اُس نوجوان سے کہا:

’’بیٹا! یہ ہڈی اٹھا کر اس میں لگا ہوا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھا لو، یہ سنت ہے۔‘‘

نوجوان عقیدت مند نے فوراً ہڈی اٹھائی اور اُن کی ہدایت پر عمل کیا۔ تمام شرکائے محفل نے ایک سنت پر اپنے سامنے عمل ہوتے دیکھا۔ کھانے کے آداب کے لحاظ سے سب کی اخلاقی تربیت ہوئی۔

تربیت کا یہ ایک انداز ہے۔

آج سے پچاس سال پہلے کا واقعہ ہے، جب ہم جہلم میں رہائش پذیر تھے۔ کسی اور شہر کے گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب ہمارے گھر تشریف لائے ہوئے تھے۔ موصوف اپنی سرکاری حیثیت سے بڑھ کر ایک بڑی روحانی شخصیت بھی تھے۔ ہمارے والد مرحوم اُن کے بڑے عقیدت مند تھے۔ کھانے کا وقت ہوا تو دستر خوان بچھایا گیا۔ بزرگ مہمان، ہمارے والد صاحب اور ہم سب بچوں نے کھانا شروع کیا۔ جب سب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو میرے چھوٹے بھائی (جس کی عمر اُس وقت دس سال کے قریب تھی) کی پلیٹ میں ایک گوشت لگی ہڈی رہ گئی۔ بزرگ مہمان نے وہ پلیٹ اپنے قریب کی۔ اُس میں سے استعمال شدہ ہڈی اُٹھا کر تھوڑا بہت گوشت جو اُس میں لگا ہوا تھا، اپنے دانتوں سے نوچا اور ہڈی چوس کر واپس پلیٹ میں رکھ دی۔ اُن کے اس خاموشی سے کیے گئے عمل کو ہم سب نے دیکھا۔ میرے اُس چھوٹے بھائی کی عمر آج ساٹھ سال کے قریب ہوچکی ہے، لیکن اُس دن کا سیکھا ہوا سبق اُسے آج تک یاد ہے۔ اُسے ہی نہیں، مجھے بھی اور جو جو اس کھانے میں شریک تھے، سب کو اچھی طرح یاد ہے۔

تربیت کا یہ بھی ایک انداز ہے۔