امریکا میں ایک بار بچوں کا مقابلہ حسن ہوا۔ مائیں اپنے بچوں کو سجا سنوار کر بہترین لباس میں ملبوس کرکے لے آئیں۔ ہال میں ہر طرف خوب صورت بچوں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت بچہ، فیصلہ کرنا آسان نہ تھا کہ ان میں سب سے زیادہ خوب صورت کون سا بچہ ہے؟
لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب ایک سیاہ فام ماں اپنے کالے سیاہ بچے کو مقابلہ حسن میں لے آئی۔ عورتوں نے اس کا بہت مذاق اڑایا مگر ماں کے چہرے پر کوئی پریشانی، افسوس یا ندامت نہ تھی اور نہ ہی وہ مقابلہ سے دست بردار ہوئی۔
جب نتیجے کا اعلان ہوا تو لوگ حیران رہ گئے کہ ججز نے اس عورت کو اعزازی انعام سے نوازا تھا اور ججز نے کہا کہ یہ ماں کی مامتا کا انعام ہے کہ اس نے اپنے بچے کو کسی سے کم نہیں سمجھا!
ہم بھی جب کوئی مضمون، کہانی یا تحریر سطح قرطاس پر رقم کرتے ہیں تو عنوان، الفاظ، مضمون، ترتیب سب پر نجانے کا کتنا غور و فکر کرتے ہیں اور بزعم خود یوں مطمئن ہوتے ہیں کہ ’’یہ تو سرورق کی کہانی بنے گی، اس سے زیادہ خوب صورت اس عنوان پر کوئی کیا لکھے گا؟‘‘ جیسے کتنے ہی الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔ گھر والوں کو دکھا کر داد طلب نگاہوں سے ہر ایک کو دیکھتے ہیں اور اس سیاہ فام عورت کی طرح ہمارا بد صورت مضمون ہمیں دنیا کی خوب صورت تحریر نظر آرہی ہوتی ہے۔ پوسٹ کرتے ہی یہ امید لگ جاتی ہے کہ بس اگلے ایک دو شماروں ہی میں شائع ہوجائے گی، مگر ہر آنے والا رسالہ ہمار امنہ چڑاتا آتا ہے۔ پورا ہفتہ گومگو اور امید و یاس کی کیفیت میں مرغ بسمل کی طرح گزرتا ہے اور یوں مہینوں بیت جاتے ہیں مگر مضمون چھپ کر ہی نہیں دیتا اور نہ کوئی بتاتا ہے کہ امید کا دامن چھوڑ دو، آپ کا حسین و جمیل شاہکار ’’رزق و قود سلۃ المھملات‘‘ بن چکا ہے۔
اے کاش! آپ لکھاری کی مامتا کے جذبات کو سمجھ سکتے! میری ایک خواہش ہے کہ آپ رسالہ میں سلسلہ ’ناقابل اشاعت‘ پھر سے شروع کریں جو تحریریں آپ کے معیار پر پورا نہ آترتی ہوؐں اس سلسلے میں اُن کے نام دے دیں، اِس طرح میرے قبیل کے بہت سے لوگ آس و نراس کی کیفیت سے نکل آئیں گے اور لکھاری کی مامتا کو کسی قدر سکون مل جائے گا جن کے لکھے ہوئے کئی مضامین ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں، وہ ٹھنڈی آہ بھر کے رب کی رضا پر راضی ہوجائیں گے۔
بچے کا گم ہوجانا بچے کے فوت ہوجانے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ میرے اور میرے بچوں کے لکھے کئی مضامین جناب کے دفتر میں پہنچ چکے ہیں امید ہے کسی قریب ترین شمارہ میں شائع ہوجائیں گے۔ (مولوی شبیر احمد۔ وہاڑی)
ج: یہ سلسلہ بانی مدیر جناب اشتیاق احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور ہی میں اس لیے بند ہوگیا تھا کہ اکثر لکھنے والے اس سلسلے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ جو گھر میں ہوتے ہیں ناں شرارتی بہن بھائی، جو خود تو ایک لفظ نہیں لکھ پاتے مگر اپنے لکھاری بہن بھائی کا نام سلسلہ ’’ناقابل اشاعت‘‘ میں پڑھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے۔ خیر تجربے سے ثابت ہوا کہ اس سلسلے کے نہ ہونے ہی میں طرفین کے لیے زیادہ عافیت ہے، پھر آپ نے سیاہ فام ماں کے حوالے سے جو مثال دی، وہ بھی اس سلسلے کی اشاعت پر فٹ نہیں آرہی۔ اس ’’ماں‘‘ کی ممتا کو ردی کی ٹوکری میں تھوڑا ہی ڈالا گیا تھا بلکہ اعزازی انعام سے نوازا گیا تھا۔ اب خود ہی سوچیے ’’ناقابل اشاعت‘‘ میں نام آنا کوئی اعزاز تو نہیں ہوگا ناں تو پھر لکھاری کی ممتا کو سکون کیسے آئے گا؟!