عظمیٰ ابو نصر صدیقی
عزیر اور عمیر دونوں صرف جڑواں بھائی ہی نہیں تھے بلکہ بہت اچھے دوست بھی تھے۔ وہ دونوں دوسری جماعت میں پڑھتے تھے۔
آج بھی وہ دونوں اسکول جانے کے لیے صبح ہی اٹھ گئے۔ جب امی نے ناشتا کرنے کے لیے بلایا تو دونوں تیار ہوچکے تھے۔ ناشتے کے بعد برتن اٹھانے میں دونوں امی کی مدد کرنے لگے کیوں کہ ان کی اسکول وین ابھی تک نہیں آئی تھی۔
’’پاں پاں…!‘‘
اسکول وین کا ہارن سن کرانھوں نے امی کوسلام کیا اوربستہ اٹھا کر باہر نکل آئے۔
باہر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
اسکول میںکھانے کا وقفہ ہوا تو لنچ باکس میں آج پھر ابلے ہوئے انڈے دیکھ کر دونوں کا منہ بن گیا۔ بات یہ تھی کہ دونوں ہی کو انڈے پسند نہیں تھے اور وہ بھی ابلے ہوئے۔
انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر لنچ کیا اور اپنے انڈے اپنے دوستوں کو کھلا دیے تاکہ امی سے ڈانٹ نہ پڑے اور پھر خالی لنچ بکس بستے میں رکھ کر کھیلنے کے لیے میدان میں آگئے۔ آج نرسری کلاس میںپالتو جانوروں کو ساتھ لانے کی سرگرمی تھی۔ اس لیے ان کی کلاس کی طرف بہت رش لگا ہوا تھا، کوئی بچہ اپنے ساتھ بلی لایا تھا تو کوئی توتا مگر زیادہ تر بچے چوزے لے کر آئے تھے اور ایک بچہ تو بکری کا بچہ بھی لایا تھا۔
ننھے ننھے پیارے چوزے سب کو ہی اچھے لگ رہے تھے۔
’’عمیر! ہمارے پاس تو کوئی پالتو جانور ہی نہیں ہے۔ ‘‘
عزیر نے عمیر کو کہا تو وہ بھی افسردہ ہو گیا۔
’’ہاں امی کتا اور بلی رکھنے نہیں دیتیں، پرندوں کو قید کرنے سے منع کرتی ہیں اور مرغیوں اور بکری کو گندگی کی وجہ سے پالنے نہیں دیتیں۔‘‘
وہ دونوں دوبارہ اپنی کلاس میں آکر بیٹھ گئے۔ وہ دونوں بہت اداس تھے۔
کچھ دیر بعد عمر نے عزیر کے کان میںایک بات بتائی جس سے وہ بھی خوش ہوگیا۔ اب دونوں کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔
جب امی ظہر کی نماز پڑھنے لگیںتو وہ دونوں چپکے سے اپنے گھر کے پیچھے ایک بڑے درخت کی طرف آگئے۔
’’وہ دیکھو! وہ رہا چڑیا کا گھونسلا۔‘‘ عزیر خوشی سے چلاّیا۔
دونوں مل کر پہلے اسٹور سے سیڑھی نکال کر لائے اور اس کے بعد عمیر فریج سے انڈے نکال لایا۔ یہ چار انڈے تھے جو امی انھیں اگلے دنوں میں ابال کر دینے والی تھیں۔
عزیر نے چاروں انڈے چڑیا کے گھونسلے میں رکھ دیے۔
اب وہ دونوں بہت خوش تھے کیوںکہ بہت جلد ان کے پاس بھی چوزے آنے والے تھے۔ اب جیسے ہی وہ امی کو کسی کام میں مصروف پاتے، دونوں بھاگ کر گھونسلے کے پاس پہنچ جاتے یہ دیکھنے کہ چوزے نکلے کہ نہیں؟
رات کو جب سب کھانا کھانے بیٹھے تو عزیر نے ابو سے پوچھا کہ انڈوںمیں سے چوزے کتنے دن میں نکلتے ہیں؟
پہلے تو امی ابوحیران ہوئے پھر انھیں بتایا کہ تمام پرندے پہلے انڈوں کو سیتے ہیں یعنی ان انڈوں پر بیٹھ کر انھیں گرمی پہنچاتے ہیں پھر انڈوںمیں سے چوزہ نکلتا ہے۔
’’اوہ!‘‘ وہ دونوں ایک ساتھ بولے۔
’’صبح اسکول جانے سے پہلے ہم انڈوں کو کمبل اوڑھا کر آجائیں گے تاکہ انھیں گرمی لگے اور جلد چوزے نکل آئیں۔‘‘ عزیر نے عمیر کے کان میں کہا۔
صبح فجر کی نماز کے بعد وہ اپنا کمبل گھونسلے پر ڈال آئے تھے۔ جب امی نے انڈے نکالنے کے لیے فریج کھولا تو انڈے غائب تھے، انھوں نے سب سے پوچھا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بچوں کے اسکول جانے کے بعد امی صفائی کرنے لگیں اور جب کمرے کی کھڑکی کھولی تو بچوں کا کمبل درخت پر دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ ابو دیر سے آفس جاتے تھے، امی کے بتانے پر انھوں نے درخت سے کمبل اتارا تو انھیں وہاں انڈے نظر آگئے اور وہ ساری بات سمجھ گئے۔
اسکول سے آکر عمیر اور عزیر جلدی سے درخت کی طرف بھاگے مگر اب وہاں نہ ان کاکمبل تھا اور نہ ہی گھونسلے میں انڈے، وہ دونوںمنہ لٹکا کر واپس گھر آگئے۔ اچانک انھیں کہیں قریب سے چوزوں کی چوں چوں کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ابھی وہ ٹھیک طرح حیران بھی نہ ہونے پائے تھے کہ اتنے میں امی قریب آئیں اور دونوں کے کان پکڑ کر پوچھا کہ فریج میں سے انڈے کہاں گئے؟
تو دونوں منہ نیچے کرکے معذرت کرنے لگے۔
پھرعمیر نے امی سے پوچھا:
’’کیا ہمارے رکھے ہوئے انڈوںمیں سے چوزے نکلے ہیں؟‘‘
امی نے میز کے نیچے رکھے ایک ڈبے سے کپڑا ہٹایا تو اس میںچار پیارے پیارے چوزے چوں چوں کررہے تھے۔ امی نے بتایا کہ یہ چوزے آپ کے ابو بازار سے لائے ہیں، اس طرح گھونسلے میں انڈے رکھنے سے چوزے نہیں نکلتے اور وہ دونوں خوشی خوشی اپنے چوزوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔