Magazine no Image

بچوں کی الف لیلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اَلف لیلہ یا الف لیلہ و لیلہ کہانیوں کی وہ مشہور کتاب ہے جس نے ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہوا، پوری دنیا کو مسحور کر رکھا ہے۔ ’’ایک ہزار ایک رات‘‘ نامی اِس داستان کی اپنی کہانی بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ کیسے ایک ذہین، جرأت مند اور کہانی گو خاتون نے اپنی جان پر کھیل کر نہ صرف بے شمار خواتین کی جان بچائی بلکہ عالمی ادب میں ایسا شاندار اضافہ بھی کردیا کہ آج ہزار سال بعد بھی اِس ہزار داستان کا سحر پوری دنیا پر قائم ہے…!

یہ قصہ گو خاتون ایک وزیر زادی تھیںجو اپنی ذہانت اور کہانی کہنے کی شاندار صلاحیت کی بنا پر بعد ازاں ملکہ بنیں، جبکہ ہمارے دور کے قصہ گو انبالہ کے وہ نذیر ہیں، جو اچھی کہانی کہنے اور ماہ وسال کی گرد جھاڑ کر اچھی کہانی کو بازیافت کرنے کی اپنی بہترین صلاحیت کی بنا پر اب بلاشبہ کہانی نگر کے وزیربن چکے ہیں۔
کوئی کتنا ہی اچھا کہانی کار ہو، یہ بالکل لازم نہیں کہ اسے اچھی کہانی کی پرکھ بھی ہو۔ اچھی کہانی کی جانچ پرکھ کے لیے بہرحال ایک مدیر کی سی ناقدان

ہ نظرکی ضرورت ہوتی ہے، اور جناب نذیر انبالوی چونکہ کہانی کار ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے مقبول رسالے تعلیم و تربیت کے مدیر بھی رہے ہیں، سو آپ اچھی کہانی کی پرکھ بھی رکھتے ہیں، لیکن… اِن دو خداداد صلاحیتوں کے باوجود بھی بہرحال وہ عظیم کام انجام نہیںپاسکتا تھا، جس کی ایک کڑی اِس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

جی ہاں ’’بچوں کے ادب کی الف لیلہ‘‘جیسے عظیم کام کے لیے صرف اہلیت کا ہونا کافی نہیں بلکہ مدفون خزانے ڈھونڈنے والے کھوجیوں کا سا جنون، صبر اور محنت شاقہ شرط ہے۔

ذرا اندازہ تو کیجیے یہ کتنا بڑا کام ہے کہ دو چار برس نہیں دو چار عشرے بھی نہیں بلکہ ملکِ عزیز کے ۷۵برس کے ادبِ اطفال کے خزانے کو جو مختلف رسائل میں دفن تھا، اس مدفن کو کھوج نکالنا، پھر چھانٹ کر ہلکی اور کم قیمت چیزوں میں سے ۱۰۰۱بیش قیمت نگینوں کا انتخاب کرنا اور پھر تراش خراش کر ۲۰ شاندار جڑائو گلوبند کی صورت قدردانوں کے سامنے پیش کردینا…!
یہ شوخ و شنگ اور البیلی سی، شگفتہ شگفتہ اور الم ناک سی، گلابوں کی سی گلابی بھی اور گیندے کی سی زرد بھی، یہ دیس دیس، قریہ قریہ، رنگ رنگ ک

ی کہانیاں، خلاق دماغوں اور حساس دلوں کی تخلیق کردہ کہانیاں، وہ جو ہماری تاریخ کے۷۵برسوں کا چہرہ تھیں مگر امتدادِ زمانہ سے بھولی بسری ہوگئیں، بکھر گئیں، پت جھڑ کے موسم میں شجر سے ٹوٹے پتوں کی طرح یہ بوسیدہ اوراق پر نقش اِدھر اُدھر پرانی کتب کے بازاروںمیں نیم مردہ اڑتی پھرتی تھیں، انھیں انبالہ والے قصہ گو نے جوانانہ محنت سے کھوجا اور بزرگانہ شفقت سے اپنی نگاہِ انتخاب ڈال انھیں زندہ کیا اور آج یہ وطنِ عزیز کی سات دہائیوں کے نمک کی صورت ہمارے سامنے موجود ہیں۔

بلاشبہ یہ ایک معرکے کا کام ہے جو اللہ رب العزت نے نذیر صاحب سے لے لیا۔ خدا اُن کی زندگی دراز کرے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنے اس کام کی پذیرائی اور مقبولیت دیکھ لیں، آمین!

محترم مرتب کے ساتھ ساتھ ہم اُن سیکڑوں کہانی کاروں کے بھی احسان مند ہیں جنھوںنے اپنے شب وروز کی پرچھائیوں کو یا کہہ لیجیے کہ اپنے زمانے کی مخصوص اچھائیوں کو اپنی کہانیوںمیں کچھ اِس سلیقے اور اخلاص کے ساتھ پیش کیا کہ نہ صرف ان کے زمانے کے بچے مستفید ہوئے بلکہ آج اُن بچوں کے بچے بلکہ غالب گمان ہے کہ پوتے پوتیاں ان کہانیوں سے علم وحکمت اور اعلیٰ تخیل کے موتیوں سے اپنی جھولی بھریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ!

اردو ادبِ اطفال کے پچھلے ۷۵برسوں (۱۹۴۷ء سے ۲۰۲۲ء)کا یہ خزانہ، بچوں کے ماہانہ رسائل سے ۱۰۰۱منتخب کہانیوں کی صورت (جو بیس دیدہ زیب کتابوں میں ۶۲۰۸ صفحات پر نقش ہوئی ہیں) ہماری خصوصی سفارش پر بچوں کا اسلام کے قارئین کو ۵۰ فیصد رعایت پریعنی آدھی قیمت پر مل سکتی ہیں۔

سو دیر کس بات کی؟
جلدی سے رابطہ کیجیے: (03494892240)
والسلام
مدیر مسئول