محمد طارق سمرا
’’انکل! ایک روپیہ دے دو!‘‘
میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ایک دس گیارہ سالہ لڑکا میرے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔ میں نے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی لیکن وہاں معصومیت کے سوا کچھ تحریر نہ تھا۔ میں سوچنے لگا کیا یہ میرے مقاصد کی تکمیل کے لیے موزوں رہے گا؟ چند لمحوں کی سوچ بچار کے بعد بالآخر میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
میں دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ بدستور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے میری دُکان کے کاؤنٹر پر رکھے شیشے کے گلاس سے کھیل رہا تھا۔ میں نے طے شدہ منصوبے کے تحت بات چیت شروع کردی اور صرف بارہ منٹ کی محنت کے بعد اسے یعنی عبدالرشید عرف شیدا کو شیشے میں اتار چکا تھا۔
میں نے اپنے ملازم شاہد کو ایک مخصوص اشارہ کیا اور لڑکے کو اس کے حوالے کردیا۔ شاہد میرا کاروباری معاون ہی نہیں، ہم راز بھی تھا بلکہ اسے ملازم رکھنے کا اصل مقصد ہی اپنے منصوبے میں اس کی معاونت حاصل کرنا تھا اور وہ بھی اپنی ذمے داری بڑی خوش اُسلوبی سے نبھا رہا تھا۔ اسی لیے وہ میرا اشارہ پاتے ہی عبدالرشید کو لے کر خاموشی سے دکان کی بالائی منزل پر چلا گیا۔
دونوں کے جانے کے بعد میں ایک بار پھر گہری سوچ میں ڈوب گیا اور آن کی آن میں میری سوچوں نے پندرہ سالہ ماضی کا سفر ایک ہی جست میں طے کرلیا۔ تصور میں دکھائی دینے والا منظر حافظ عبدالرحیم آڑھتی کی دکان کا تھا۔ وہی عبدالرحیم جس نے مجھے اِس راہ پر ڈالا تھا۔ ذہن پر اگرچہ یادِ ماضی کی دھند چھائی تھی لیکن سنائی دینے والی آواز، دکھائی دینے والا منظر بالکل صاف تھا۔
’’اللہ کے نام پر میری مددکرو بابا! میں یتیم ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں اور کوئی کمانے والا نہیں ہے۔‘‘
میں نے اپنی آواز کو حتی الوسع دکھی اور غمگین بناتے ہوئے کہا تھا اور اس شخص کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے تھے جو سفید شلوار کرتے میں ملبوس تھا اور ایک تخت پر تکیے کا سہارا لیے بیٹھا تھا۔
اس کے چہرے پر سفید ریشم جیسی داڑھی تھی اور سر پر زرد دھاریوں والا رومال لپیٹا ہوا تھا۔ اس وقت میری عمر لگ بھگ تیرہ سال تھی۔ بزرگ نے شفقت سے نگاہ بھر کر میری طرف دیکھا اور سوال جواب شروع کردیے۔
’’بیٹا! کیا نام ہے تمھارا؟‘‘موتیوں جیسے سفید چمکدار دانتوں والے بزرگ نے سرائیکی زبان میں سوال کیا جو میری بھی مادری زبان تھی۔
’’علم دین!‘‘ میں نے خواہ مخواہ جھوٹ بول دیا۔
اگلا سوال ہوا:’’پڑھے لکھے بھی ہو؟‘‘
میرے اندر ایک ہوک سی اٹھی۔ جس غریب کا باپ بچپن ہی میں فوت ہوگیا ہو اور رشتے دار بھی غریب بیوہ اور اس کے بچوں کو فالتو کا بوجھ سمجھ کر منہ پھیر جائیں، وہ بھلا اسکول میں پڑھنے جیسی عیاشی کیسے کرسکتا ہے!
’’نئیں جی!‘‘ سچ بے اختیار میری زبان سے پھسل گیا، البتہ میرے لہجے میں کڑواہٹ بھری ہوئی تھی۔
’’کتنے پیسے اکٹھے ہوجاتے ہیں؟‘‘ بزرگ نے ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’سارا شہر غریب ہوگیا ہے، ہم غریبوں کے لیے تو اور غریب ہوگیا ہے، جھڑک دیتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں لیکن غریبوں کی مدد نہیں کرتے۔‘‘
میں نے اداکاری اورصداکاری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
میں پیشہ ور فقیر نہیں تھا۔ حالات نے مجھے ایسا بنا دیا تھا لیکن بے رحم حالات اور دردر کی گدائی نے مجھے اور بھی بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ یہ بابا مجھے کافی دردِ دل رکھنے والا لگا تھا، اگر میں اسے اپنی اداکاری سے رام کرلیتا تو مجھے موٹی رقم خیرات میں مل سکتی تھی۔
ہر روز دوپہرکے وقت میرے پاس آجایا کرو، دس روپے دیا کروں گا۔‘‘
بزرگ نے میرے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے ایک عجیب سی آفر دی۔ میں تو زیادہ سے زیادہ پچیس روپے کی توقع کررہا تھا اور اس بے وقوف بابے نے ہر روز دس روپے دینے کی آفر دے دی تھی۔
’’یہ تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا، بظاہر بابے کی پیشکش قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا، پھر بھی میں نے تذبذب کی اداکاری کرتے ہوئے ڈرے ڈرے لہجے میں ہامی بھر لی اور یہیں سے میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔
اگلے روز وقت مقررہ پرمیں عبدالرحیم آڑھتی کی دُکان پر پہنچ گیا۔ وہ ایک کامیاب تاجر تھا اور شاید انجمن آڑھتیان غلہ منڈی کا کوئی عہدیدار بھی تھا۔ میں جیسے ہی دکان میں داخل ہوا، وہ ساری مصروفیت چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوگیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے وہ میرا ہی منتظر ہے۔ بڑی شفقت سے پاس بٹھایا اور کھانے کا پوچھا اور اس سے قبل کہ میں ہاں یا نہ کرتا، اپنے پہلو میں پڑا ٹفن اٹھایا اور کھول کر میرے سامنے رکھ دیا اور ساتھ ہی ایک ملازم کو آواز دی۔ ملازم ایک لوٹا پانی اور ایک لوہے کا تسلا لے آیا، پھر اس نے پہلے میرے اور پھر بابا عبدالرحیم کے ہاتھ دھلوائے۔ بابا عبدالرحیم نے ایک بار پھر شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بسم اللہ پڑھ کر مجھے کھانا شروع کرنے کو کہا۔ میں جو پچھلے کئی گھنٹوں سے بابے کے بارے میں ایک عجیب سے تذبذب کا شکار تھا اس غیر متوقع سلوک پر مزید حیرت زدہ ہوگیا۔
’’آخر یہ میرے ساتھ اِس قدر اچھا سلوک کیوں کررہا ہے۔ یہ مجھ سے کیا چاہتا ہے؟‘‘
یہی ایک سوال تھا جو بار بار میرے ذہن میں گردش کررہا تھا۔
جب ابو فوت ہوئے تو میں بہت چھوٹا تھا۔ میرے علاوہ دو چھوٹی بہنیں بھی یتیم ہوئی تھیں۔ غربت نے پہلے ہی ہمارے گھرمستقل ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اوپر سے ابو کی وفات نے اور مشکلات پیدا کردیں۔ امی جو پہلے ہی حالات پر جھنجھلاتی اور چلاّتی رہتی تھیں، ابو کی وفات سے ملنے والے صدموں کو نہ سہہ پائیں اور نیم پاگل سی ہوگئیں۔ رشتے دار جو پہلے ہی ہمارے ساتھ کم کم تعلق رکھتے تھے، ابو کی وفات کے بعد تو وہ ہمیں بالکل ہی چھوڑ گئے۔ پاس پڑوس کے لوگ بھی کب تک اور کس قدر ہمارا بوجھ اٹھاتے، بالآخر ایک دن چھوٹی بہنوں کی بھوک نے پریشان کیا تو روٹی مانگنے نکل کھڑاہوا اور یوں روٹی مانگتے مانگتے مستقل گدا گر بن گیا تھا۔ تلخ تجربات نے میرا یقین بنا دیا تھا کہ اس دنیا میں کوئی کسی کومفت میں دھکا بھی نہیں دیتا لیکن یہ بابا مفت میں دس روپے روزانہ دینے کا وعدہ کررہا ہے تو ضرور اس میں اس کا کوئی مقصد چھپا ہوگا، آخر وہ مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ میری چھٹی حس مجھے بار بار خبردار کررہی تھی۔
’
’جوہوگا، دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ سوچ کر میں نے اپنے آپ کو تسلی دے لی۔ کھانے سے فراغت کے بعد بابے نے ایک سبز سرورق والا قاعدہ میرے سامنے رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے کہا:’’میں تمھیں پڑھاؤں گا۔ صرف ایک سطر روزانہ، جلدی سے یاد کرکے سنا دیا کرو، اس کے بعد تمھاری چھٹی! بولو منظور ہے؟‘‘
اور بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتاتھا۔
اب میرا معمول بن گیا۔ میں روزانہ دوپہر کے وقت دُکان پر جاتا۔ بابا جی مجھ سے پرانا سبق سنتے اور اگلی سطر یاد کرنے کو دے دیتے جسے میں چند ہی منٹوں میں یاد کرکے انھیں سنا دیتا اور بابا جی اپنی جیب سے دس روپے نکال کر مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ میں تھما دیتے اور میں خوشی سے چہکتا ہوا باہر نکل جاتا۔ پیسوں کالالچ تھا یا علم کی فطری پیاس، دو ماہ ہی میں مجھے وہ قاعدہ ازبر ہوگیا۔ اس کے بعد بابا جی نے مجھے نماز، کلمے اور درود شریف یاد کروائے۔ ایک دو ہفتوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا تو انھوں نے قرآن پاک پڑھانا شروع کردیا۔ قرآن پاک کا اثر تھا یا بابا جی کی شفقت اور تربیت کا کمال کہ مجھے گداگری سے نفرت سی ہونے لگی، پھر ایک دن یہ بات میں نے بابا جی سے بھی کہہ دی۔ میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے اپنی دُکان میں ملازم رکھ لیا لیکن تعلیم کا سلسلہ بدستور جاری رہا، بلکہ اب قرآن پاک کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی آغاز یوں کیا کہ اپنے منشی کو مجھے پڑھانے کی ذمے داری سونپ دی۔
منشی خالد نے ایک ڈیڑھ سال میں مجھے حساب کتاب کرنا، اردو لکھنا پڑھنا اور کسی حد تک انگریزی بھی سکھا دی۔ ابھی شاید میرا تعلیمی سلسلہ مزید آگے بڑھتا کہ بابا جی کی عمر نے وفانہ کی اور رمضان المبارک کی ایک شب و ہ اچانک اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور میں ایک بار پھر یتیم ہوگیا۔
مجھے لگا جیسے پھر سے میری دنیا اندھیر ہوگئی ہو لیکن اب میری دنیا اتنی اندھیری نہیں تھی جتنی ابو کی وفات کے وقت ہوئی تھی۔ اب بابا جی کا دیا ہوا علم کا نور میرے قلب وذہن کو منور کرچکا تھا۔ میں جلد ہی صدمے سے سنبھل گیا اور محنت مزدوری شروع کردی۔ بابا جی کا سکھایا ہوا اخلاص، ایمانداری اور
سچائی کا سبق میرے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوا اور میں، جس نے پھیری سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، آج ایک بڑے اسٹور کا مالک تھا۔
صرف یہی نہیں، میں بابا جی کے مشن کو بھی جاری رکھے ہوئے ہوں۔ حافظ عبدالرحیم بابا نے مجھ جیسے گدا گر اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے جو دیا روشن کیا تھا، میں نے اسے بجھنے نہیں دیا کیوںکہ میں جانتا ہوں کہ دیے سے دیا روشن ہوتا ہے۔ غریب،یتیم اور بے سہارا بچوں کو مختلف حیلے بہانوں سے آمادہ کرکے دینی اور دنیاوی تعلیم دلوانا میری زندگی کا مقصد ہے۔ جب تک زندگی وفا کرے گی میں ان شاء اللہ تعالیٰ اپنا مشن جاری رکھوں گا۔ دیے سے دیا جلاتا رہوں گا۔ میں اب تک ایسے چالیس دیے جلا چکا ہوں۔ عبدالرشید عرف شیدا اکتالیسواں دیا ہے۔ اب آپ ایسے کتنے دیے جلا سکتے ہیں؟ ضرور سوچیے گا!