آج استاد جب کلاس میں داخل ہوئے تو کمرۂ جماعت کی بری حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔ کوئی لڑکا ڈیسک پر چڑھا ہوا تھا تو کوئی کاغذ کے جہاز بنا کر اڑا رہا تھا۔ اس سے بڑھ کر ایک صدمے کی بات یہ تھی کہ ایک لڑکا استاد کی کرسی پر بیٹھ کر انتہائی بے ادبی اور جہالت کا اظہار کر رہا تھا۔
استاد کو آتے دیکھ کر تمام طلبہ جلدی سے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ اوراق، آلاتِ علم سے بنے ہوئے جہاز نیچے گرے ہوئے تھے اور کوئی بھی طالبِ علم انھیں اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کر رہا تھا۔ استاد جی نے اندر آتے ہی اوراق کے بنے جہازوں کو خود اٹھالیا۔ انس نے استاد کے ہاتھ سے صفحے لے لیے۔
استاد صاحب کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔
ان کے چہرے پر غصے کے اثرات دیکھ کر تمام طلبہ خاموشی سے بیٹھے رہے۔ استاد جی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’افسوس صد افسوس! آپ لوگ آلاتِ علم، اساتذہ اور کتابوں کا بالکل ادب نہیں کرتے۔ یاد رکھیں! اگر علم حاصل کرنا ہے تو ادب کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوٹنے دیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: ’الدین کلہ ادب‘ یعنی دین سارا کا سارا دب ہے۔‘‘ استاد جی کی باتوں میں درد تھا۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے:
’’ایک طالبِ علم بہت ہی کند ذہن تھا۔ سبق کا ایک لفظ اس کو نہیں آتا تھا۔ امتحان میں رعایتی نمبرات کے ذریعے پاس ہوجاتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ علم حاصل کرنے کے بجائے کوئی پیشہ یا کسب اختیار کرکے اپنے والدین کی خدمت کرتا لیکن اس نے ہمت کا دامن نہیں چھوڑا، حوصلہ پست نہیں کیا، اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس نے دعاؤں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ادب اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ چھٹی والے دن اساتذہ کے کپڑے وغیرہ دھوتا ان کے سروں کی مالش کرتا، اساتذہ اس کے ادب کی وجہ سے انتہائی خوش ہوتے اور اس پر دعاؤں کی برسات کردیتے۔ سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں اپنے گرم بستر کو چھوڑ کر اساتذہ کے لیے گرم پانی کا انتظام کرتا۔
ایک دن وہ جب استاد کے لیے پانی رکھ کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کو دیکھ کر استاد جی بہت خوش ہوئے اور اس کو دل کی گہرائی سے دعا دی:
’’اللہ تجھے اپنے غیب سے علم عطا کرے!‘‘
بس پھر کیا تھا۔ اللہ نے استاد کی دعا کو ایسے قبول کیا کہ اس کے زنگ آلود دل کو اللہ نے علم کے نور سے روشن کردیا۔ اللہ نے اس کو ایسی کامیابی دی کہ وہ ایک دن کسی مدرسے کا صدر بن گیا اور آج وہ آپ کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
لڑکے ان کی بات کو غور سے سن رہے تھے اور اپنی بے ادبیوں کو یاد کرتے ہوئے شرمندہ تھے۔
استاد جی نے انھیں کہا: ’’اپنے ساتھیوں کی بھی قدر کیا کرو کہ یہ بھی آلاتِ علم ہی ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو آپ اکیلے علم حاصل نہ کرسکتے۔‘‘
استاد جی نے سب سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ کبھی بھی بے ادبی نہیں کریں گے۔ سب کو سمجھا کر استاد جی چلے گئے۔