سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے اچھے برے اثرات پر فکری نشست

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے غلبے کے اس دور میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اس سنگین مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لیے کراچی انسٹیٹیوٹ اف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک فکری نشست بعنوان “کیا ہم جعلی خبروں کے جال میں پھنس رہے ہیں، اس ڈیجیٹل دور میں سچ اور حق کی پہچان کیسے کی جائے؟” کا انعقاد کیا گیا جس میں نامور صحافیوں ماہرین معیشت اور تعلیم نے شرکت کی۔
سینئر صحافی عظمت علی خان جو اپنے بے باک انداز تحریر اور ذمہ دارانہ صحافت کے حوالے سے مشہور ہیں، نے میزبانی کے فرائض انجام دیے اور “میڈیا: عوامی ذمہ داری” اور ڈیجیٹل تعلیم کے حوالے سے بھرپور اور بامقصد گفتگو اور سوالات کیے۔

پینل کے شرکاء میں سینیئر صحافی فیض اللہ خان اے آر وائی نیوز بھی شامل تھے، جنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جعلی خبریں شیئرنگ سے فروغ پاتی ہیں، ہر فرد اب میڈیا کا حصہ ہے اس لیے خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضروری ہے۔
محترم صحافی اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کے مقامی صحافت کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جعلی بیانیے کو چیلنج کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔

شاہد علی سینیر ماہر معیشت نے جعلی خبروں کے معیشت پر اثرات پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں بے یقینی اور سرمایہ کاروں کا خوف اکثر جعلی معلومات کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔

 مذاکرے میں اختر علی شاہین رند جو سینئر صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اینکر پرسن بھی ہیں نے میڈیا میں اخلاقیات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ریٹنگز کی دوڑ نے صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، صحافتی اصولوں کی طرف واپسی ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عرفان عزیز جو کہ شعبہ ابلاغ عامہ کے فیڈرل اردو یونیورسٹی میں استاد بھی ہیں پرمغز گفتگو کی اور تجویز دی کہ میڈیا لٹریسی کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے ہم اپنی نوجوان نسل کو اگر تنقیدی سوچ سکھائیں تو سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں گے۔
مذاکرے کے تمام شرکاء نے اجتماعی طور پر فیکٹ چیکنگ اداروں کے قیام عوامی آگہی مہمات اور ایسی پالیسیوں کی حمایت کی جو آزادی اظہار اور احتساب کے درمیان توازن قائم کریں، مذاکرے میں پاکستان میں بھارت کے درمیان موجودہ اسٹریٹجک کشیدگی کے پس منظر میں دونوں ممالک کے میڈیا کے رویوں اور خبروں کے فرق پر بھی کھل کر بات کی ماہرین نے واضح کیا کہ کس طرح مخصوص بیانی ہے۔ جذباتی کوریج اور جھوٹی معلومات کے ذریعے عوام کوگمراہ کیا جاتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں نوجوان نسل کو تنقیدی سوچ خبر کی تصدیق اور میڈیا کے عزائم کو سمجھنے کی تربیت دی جائے تاکہ وہ کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو، مذاکرے کے اختتام پر کراچی انسٹیٹیوٹ اف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد خالد خان نے اس قسم کی علمی نشستوں سے طلبہ کو براہ راست ایسے ماہرین اور جید اساتذہ سے استفادہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے کہ حالات حاضرہ کے تناظر میں اس علمی مذاکرے کا اہتمام ادارے کی کوالٹی ایشورنس سیل کی ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر ساجدہ پروین نے کیا تھا جو علمی ادبی حوالے سے اور میڈیا کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔