رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
الجزیرہ کی زندہ بچ جانے والی نامہ نگار یسریٰ العکلوق نے انس الشریف شہید کی بیوہ ’بیان‘ کا انٹرویو کیا ہے جس کے مندرجات عرب سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں۔ آیئے غزہ کے سب سے مشہور صحافی کی دلدوز یادیں تازہ کرتے ہیں، جو راہِ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے تاریخ میں امر ہوگیا۔
انس ایک رات اچانک بنا کسی اطلاع کے گھر آ گئے۔ وہ آخری جمعہ اور آخری ملاقات تھی۔ طویل جدائی کے بعد اچانک نمودار ہوئے اور جب دروازے پر کھڑے اپنی کھلی باہوں کے ساتھ سامنے آئے تو بیان کو لگا جیسے سارا جہان اُن کی آغوشوں میں سمٹ آیا ہو۔ اس بار انہوں نے خلافِ معمول سیدھا اپنے بچوں کی طرف رخ کیا، ضد کر کے انہیں نیند سے جگایا اور باری باری دونوں کو بانہوں میں اٹھایا۔ کبھی فضا میں اچھالتے اور پھر سینے سے لگاتے۔ بار بار انہیں گود میں گھماتے جیسے آنے والے دنوں کی تنہائی کے لیے اُن کی ہنسی اور معصوم خوشبو کو اپنے اندر محفوظ کر لینا چاہتے ہوں۔ انس کبھی صوفے پر بیٹھتے، کبھی زمین پر دراز ہوتے اور کبھی بستر پر لیٹ کر دونوں بازو پھیلا دیتے۔ اُن کا بدن تھکن سے نڈھال تھا اور پہلی بار انہوں نے کھل کر اس تھکن کا اعتراف کیا۔ ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے اُن کے چہرے پر ایسا انکسار اور تھکن دیکھی جو پہلے کبھی نہ تھی۔ پہلی بار انہوں نے کہا کہ انہیں سکون اور ایک سادہ، بے خوف زندگی کی چاہت ہے۔
اس شب انس کے پاس نہ موبائل فون تھا، نہ خبریں، نہ ہنگامے۔ وہ صرف اپنے احساسات لے کر آئے تھے اور گھر کی دیواروں کے بیچ ایسے پھرتے جیسے تتلی اپنی خوشبو بکھیرتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک گہرا سکوت تھا اور آغوش میں چھپا ہوا ایک خاموش الوداع۔ میرے دل میں ایک صدا اُبھری: ”کیا یہ آخری ملاقات ہے؟“ مگر میں نے اس صدا کو دبا دیا اور خود کو قائل کر لیا کہ یہ صرف شوق کی شدت ہے، وداع کی کیفیت نہیں۔ چند گھنٹے بعد انس نے رخصت ہونے کا ارادہ کیا۔ ان کے ہر قدم کے ساتھ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی خنجر میرے دل میں پیوست ہورہا ہو۔ دروازے پر پہنچ کر وہ پلٹے، مسکرائے اور بولے: ’وعدہ ہے کہ تمہاری سالگرہ میں دوبارہ ملاقات ہوگی، تب واپس آوں گا اور میرے ہاتھوں میں تمہارے لیے ایک تحفہ بھی ہوگا۔‘ میں جانتی تھی کہ انس ہمیشہ میری خوشیوں کو ایک تہوار بنادیتے تھے۔ بہرحال میں نے بوجھل قدموں کے ساتھ اُنہیں رخصت کرکے واپس پلٹ گئی اور وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
اس ملاقات کے صرف 48 گھنٹوں بعد وہ دن آیا جسے میں اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت دن سمجھتی تھی، میری سالگرہ، 14 اگست کا دن۔ مگر اس روز انس کسی تحفے کے ساتھ تو نہ لوٹے۔ وہ گھر تو آئے مگر کندھوں پر سوار ہوکر، خاموش، بے صدا، نہ کوئی تحفہ، نہ کوئی حیرانی، نہ کوئی بغل گیری۔ مجھے صرف ایک منٹ دیا گیا کہ اپنے محبوب شوہر کا آخری دیدار کر سکوں۔ میں نے روتے ہوئے کہا: ’کفن کھولو، میں اُن کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں، ان کے رخسار پر الوداعی بوسہ ثبت کرنا چاہتی ہوں‘ مگر قریب موجود لوگوں نے انکار کیا، کیونکہ انس کی آنکھیں باقی نہ رہی تھیں۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے کفن پر اپنا چہرہ رکھا اور زارو قطار رونے لگی: ’اس کا جسم سرد ہے، مگر گوشت اب بھی نرم ہے‘۔
انس کی داستان محض ایک صحافی کی شہادت نہیں بلکہ ایک شوہر، ایک باپ اور ایک عاشقِ وطن کی جاودانی ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ ایک بیوہ کا نوحہ ہے جس کا دل اب ٹوٹ پھوٹ کر گھل رہا ہے اور جو دنیا سے فریاد کر رہی ہے: میرا دل کون لوٹائے گا؟محض ایک منٹ کی مہلت تھی جس میں بیان (انس کی بیوہ) نے اپنے شوہر کے کانوں میں آہستہ سے بس ایک سوال سرگوشی کیا: ’کہاں گیا وہ وعدہ جو تم نے کیا تھا کہ ہم اکٹھے مریں گے تاکہ کوئی بھی دوسرے کی جدائی کا زخم نہ سہہ سکے؟ ہم نے تو ایسا طے نہیں کیا تھا میرے محبوب، کیا تم نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میری سالگرہ کے دن واپس آو¿ گے؟‘ یہ جملے ابھی لبوں پر ہی تھے کہ لوگوں نے انس کو اُس کے سامنے سے اٹھا لیا اور کندھوں پر رکھ کر آخری آرام گاہ کی طرف لے کر چل پڑے۔ الجزیرہ نے انس الشریف کی بیوہ، بیان خاتون سے ملاقات عین اُس دن کی جب اُن کا جنم دن تھا مگر اب یہ دن ان کی زندگی میں ایک نیا عنوان پا چکا ہے، سالگرہ نہیں، بلکہ غم اور تعزیت کا دن۔
ہمارے سامنے وہ بیٹھی تھیں، ایک تھکا ماندہ جسم، سوجی ہوئی آنکھیں اور درد سے جھکا ہوا سر۔ وہ تحفہ جس کا وعدہ تھا نہ آسکا، آیا تو ایک کڑوا اور بے رحم وداع، جو موت کی طرح اچانک اور بے خبر تھا۔ انس کی ننھی بیٹی ’شام‘ بھی اُس غم کی زندہ تصویر ہے۔ جب وہ اپنے والد کی خیمہ گاہ ڈھونڈنے گئی تو نہ خیمہ تھا نہ اُس کا شفیق باپ۔ وہ واپس آئی تو آنکھوں میں سوالات اور دل میں خلا لیے، ایک خلا جو کبھی پُر نہ ہوگا۔
انس کو دھمکیاں روز ملتی تھیں مگر آخری دھمکی کچھ اور ہی تھی۔ قابض فوج نے فون پر کہا: ’ہم تمہاری کمر تمہاری بیوی اور بچوں سے توڑ دیں گے۔ ہم ان کا ٹھکانہ جانتے ہیں اور انہیں قتل کریں گے‘۔ یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے انس کے دل میں ایک الگ ہی نوعیت کا خوف بھر دیا۔ اُس نے بیان سے فوراً گھر چھوڑنے کو کہا کیونکہ اسے لگا کہ اس بار دشمن اپنے ارادے میں سنجیدہ ہے۔ یہ اندیشہ انس کو آخری سانس تک کچوکے دیتا رہا۔ بمباری سے محض پانچ منٹ قبل اُس نے بیان کو فون کیا۔ اُس کی آواز میں ایک پوشیدہ سوز تھا جسے بیان نے فوراً محسوس کر لیا۔ اس نے کہا: ’بیان! سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔ تمہارے لیے خوفزدہ ہوں۔ رپورٹنگ کے لیے نکلتا ہوں مگر دماغ تمہارے پاس ہی ہے۔‘ پھر اچانک اس نے وصیت کی: ’تمہیں لازماً غزہ سٹی چھوڑ کر جنوب جانا ہوگا۔ اگر شمال اور جنوب کے درمیان رکاوٹیں ڈال دیں تو تم محفوظ نہ رہو گی۔ وہ تمہیں میرے خلاف ہتھیار بنائیں گے اور میرے لیے موت اس ذلت سے آسان ہے۔‘ مگر ہمیشہ کی طرح بیان نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا:’میں سب کچھ کر سکتی ہوں مگر تم سے دوری برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ خیال فوراً دل سے نکال دو۔‘
یوں انس اپنی آخری ہچکچاہٹ اور فکر کے ساتھ زندگی کی اُس سرحد کو عبور کر گئے جہاں سے واپسی نہیں۔ پیچھے رہ گئی ایک بیوہ جس کا دل مسلسل گھل رہا ہے اور ایک ننھی شام جس کی معصومیت کو بابا کی جدائی نے ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ محض پانچ منٹ کا وقفہ تھا انس کے آخری فون کال کے اختتام اور اُس ہولناک حملے کے درمیان۔ انہی لمحوں میں وہ اپنی بیوی کو بار بار سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے کہ وہ فوراً غزہ شہر سے نکل کر وسطی علاقے کی طرف چلی جائیں، اس اندیشے سے کہ کہیں دشمن زمینی یلغار نہ کر دے۔ مگر بیان کے لیے یہ فیصلہ ممکن نہ تھا۔ اس سے قبل بھی انہیں کئی مواقع ملے کہ وہ غزہ چھوڑ دیں لیکن ہر بار انہوں نے انکار کیا۔ جب ہم نے اُن سے پوچھا: ’آخر تم نے بار بار انکار کیوں کیا؟‘ تو انہوں نے اشک بار لہجے میں کہا: ’انس ہی میری پوری زندگی ہے۔ میں کیسے اُسے اس کے بچوں کی صورت سے محروم کر دیتی، جبکہ انہی لمحات کی دید اُسے زندگی کا سہارا دیتی تھی؟ میں کیسے غزہ سے نکل کر سکون پاتی جبکہ وہ تنہا جنگ کے دکھ سہتا رہتا؟ میں کیسے اسے بیابان سڑکوں اور کھنڈر نما راستوں پر اکیلا چھوڑ دیتی؟‘ (جاری ہے)
