جنرل حمید گل ایک عہد ساز شخصیت

جنرل حمید گل مرحوم کو ہم سے بچھڑے 10برس بیت گئے ہیں۔ یہ بطلِ حریت پاک سر زمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے نظام کی جدوجہد کرتے ہوئے 15اگست 2015ء کواللہ تعالیٰ کے حضور جا پہنچے۔

اُمت اسلامیہ اور پاکستانی قوم کے لیے یہ امر باعثِ صد افتخار ہے کہ سلطان محمد فاتح’ محمود غزنوی’ سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کے بعد تاریخ نے اسلام دشمن استعمار کو لوہے کے چنے چبوانے والا عطائے ایزدی صلاحیتوں سے مالا مال ‘مجاہد اسلام’ جنرل حمید گل کو جنم دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ افواجِ پاکستان میں خدمات کی انجام دہی سے جو خاص شہرت جنرل حمید گل کے حصے میں آئی’ وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔ جنرل حمید گل نظریۂ پاکستان اور ملک عزیز میں اسلامی نظام کے قیام کے بڑے حامی اور داعی تھے۔ وہ نظریۂ پاکستان کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت ان کا وہ اثاثہ تھا’ جسے وہ کسی صورت گنوانے کیلئے تیار نہ تھے اور فوج سے ریٹائر ہونے کے باوجود برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ میں نے پاکستان کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے’ نہ کہ نوکری کا۔ ایک فوجی’ خواہ وہ حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ’ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر دو صورتوں میں سربکف رہتا ہے۔ وہ زندگی کے آخری سانس تک نظریۂ پاکستان کے زبردست حامی رہے۔

ان کی سپاہیانہ صلاحیتوں’ عسکری دانشمندی اور فوجی حکمت عملی نے دوسروں کو محو حیرت کیے رکھا۔ یہ ان کی عجز و انکساری تھی کہ انہوں نے اپنی سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی حفاظت کے لیے کبھی سکیورٹی گارڈ نہیں رکھے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام اور دیوارِ برلن کے ٹوٹنے پر اس کا ایک ٹکڑا جنرل صاحب کو تحفتاً بھیجا گیا تھا جس پر یہ الفاظ کندہ ہیں ”دیوارِ برلن 1989ئ’ اس شخص کے نام جس نے اس دیوار پر پہلی ضرب لگائی”۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان کو پاکستان سے انتہا درجے کا عشق تھا۔ انہیں یہ غیرمتزلزل یقین تھا کہ پاکستان عالم اسلام کی قیادت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔ ان کا آخری سفر قومی پرچم کے سائے تلے طے ہوا۔ مرحوم ایک سچے’ کھرے اور محب وطن انسان تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جنرل حمید گل مر کر بھی اپنی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ ملک عزیز میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری عمر اصولوں کے تحت گزاری اور اپنے اصولوں کی پاسداری میں ہمیشہ وقت کے سلطانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہے۔ آپ کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت کے بعد بھی ان کے نظریات کا چرچا ہے’ جس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا نظریہ آج بھی سلامت ہے۔ جنرل صاحب فرماتے تھے کہ میری منزل اسلام ہے’ اسلام آباد نہیں۔ جس دن اس دنیا سے چلا جاؤں تم میرے مشن’ سربلندیٔ اسلام اور دفاعِ پاکستان کیلئے زندگی کی آخری سانس تک لڑنا اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینا اور میں’ ان کا جانشین’ ان کا نظریاتی وارث’ ان کے اسی مشن پر گامزن ہوں۔ میں ان کی وطن کے دفاع کیلئے کھائی گئی قسم کو آخری دم تک نبھاؤں گا۔ ان شاء اللہ!

وہ قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ افغانستان پر روسی حملہ صرف ایک بہانہ ہے’ اصل نشانہ پاکستان ہے۔ اسی طرح امریکا کے بارے میں بھی کہتے تھے کہ نائن الیون بہانہ’ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے روس کو افغانستان میں شکست دی’ ایک وقت آئے گا کہ آپ سنیں گے کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے امریکا کو افغانستان میں شکست دے دی۔ آج اس مجاہدِ حق کے یہ الفاظ حقیقت کا روپ دھار کر افغانستان میں امریکی پسپائی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

آج ہمارے سیاسی رہنما اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو جس نہج پر لے کر جا رہے ہیں بلکہ لے جا چکے ہیں’ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ریاستی اداروں اور عوام کے مابین خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف منافرت کی آگ سلگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ سب کس کے ایما پر ہورہا ہے؟ یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ امریکا پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز کرنا چاہتا ہے اور اس سے پہلے اسے ڈی ملٹرائز کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ چونکہ افواجِ پاکستان کے ہوتے ہوئے پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز کرنے کی کوئی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اِس لیے فوج اور عوام میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ایسا خدانخواستہ ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ یوکرین کی تباہی کی مثال اس حوالے سے ہمارے سامنے ہے۔ ایٹمی ہتھیار سرینڈر کرنے کے بعد اسے روس نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ بے شک افواجِ پاکستان ہی ملک کے مضبوط دفاع کی ضامن ہیں اور معرکۂ حق میں اسے ثابت کر دیا۔ جنرل صاحب نے ملک میں رائج بوسیدہ سیاسی نظام کے حوالے سے بھی پیشگوئی کی تھی جو آج سچ ثابت ہو رہی ہے کہ یہ نظام صرف کرپٹ لیڈر شپ ہی پیدا کر سکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر پاک و ہند کے ان مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرویا تھا جن کی نہ تہذیب ملتی تھی’ نہ سرحد۔ اس کے باوجو دو خطوں کے لوگوں کو انہوں نے ایک قوم بنا دیا۔ یہ ہوتے ہیں قومی لیڈر جن کو ملک کا مستقبل اور اس کی سلامتی عزیز ہوتی ہے۔

آج جنرل حمید گل کے افکار و نظریات کی روشنی میں اس بوسیدہ و فرسودہ نظام کو بچانے کی بجائے ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے جو قراردادِ مقاصد اور آئینِ پاکستان کا تقاضا بھی ہے۔ ایک طرف ہمارے آئین میں اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے تو دوسری جانب ہم نے حکمرانی سیاسی جماعتوں کو سونپ رکھی ہے۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ عالمی استعماری نظام نے ہمیں اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم اپنی ہی چھری سے اپنے گلے کاٹ رہے ہیں’ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہماری اصل پہچان اسلام ہے’ قرآن ہے۔ بے شک دنیا کے تمام باطل نظریات ہمارے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئے اور اب ہم نے اقوام عالم کو نظریۂ اسلام دینا ہے۔ اس وقت دنیا میں نظاموں کی برتری کی کشمکش چل رہی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے نام پر تشکیل پانے والا یہ خطۂ زمین قائداعظم کے فرمان کے مطابق ایک تجربہ گاہ ہے جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اجتماعی و انفرادی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس سنہری موقع ہے کہ ہم ملک میں اسلامی طرز میں ڈھلا ہوا نیا نظام لانے کی تگ و دو میں لگ جائیں۔جنرل حمید گل کشمیریوں کی تحریک آزادی کے بے باک ترجمان تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کشمیر کو آزاد کروانے کی خاطر اگر پاکستان کو پچاس جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ اس وقت کشمیریوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے’ ان پر آشوب حالات میں مسلم اُمہ کو آج پھر ایک عظیم جرنیل اور اسلام کے سچے سپاہی کی ضرورت ہے۔