گزشتہ سے پیوستہ:
ایک دفعہ لندن میں تھا، دریائے تھیمز کے کنارے بت نصب ہیں، ایک جرنیل کا بت دیکھا تو معلوم کرنا چاہا کہ کون ہے، اس کی تاریخ کیا ہے، یہ مزاج ہے میرا۔ ایک بڑے جرنیل کا بت لگا ہوا تھا، تلوار پکڑی ہوئی ہے، وردی پہنی ہوئی ہے۔ میں نے ساتھی سے کہا یار، پڑھو ذرا یہ ہے کون۔ اس کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ اس نے1857ء میں لاہور کے جنوبی اضلاع میں بغاوت کو ناکام بنایا تھا۔ میں نے کہا، سردار احمد خان کھرل کا قاتل یہ کھڑا ہے۔ ہماری جنگیں چلتی رہیں۔ پھر 1857ء کی جنگِ آزادی ہوئی، ہم شکست کھا گئے۔ قومیں جب شکست کھاتی ہیں تو بہت برا حال ہوتا ہے۔ ہم پر قابض کون تھا؟ برطانیہ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد امکانات پیدا ہونے لگے کہ شاید انگریز کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ آزادی کی تحریکیں بھی چل رہی تھیں۔ اس وقت پھر یہ ذہن پیدا ہوا کہ ہماری ہزار سال حکومت رہی ہے۔ کس بنیاد پر؟ طاقت کی بنیاد پر۔ ہم اکثریت میں تو نہیں تھے۔ ہم تو پتہ نہیں کہ تیسرا حصہ تھے یا چوتھا حصہ تھے۔ ہزار سال ہم نے حکومت کی ہے طاقت پر، لیکن اب تو طاقت پر حکومتیں نہیں بنیں گی، اب تو ووٹ سے حکومتیں بنیں گی۔ ایک جملہ ہے درمیان میں جو ہضم ہو جائے تو، کہ اب بھی ہمارے ہاں تو بنتی ہی طاقت پر ہیں!!
اب حکومتیں کیسے بنیں گی؟ ووٹ سے۔ ووٹ سے بنیں گی تو ہندو زیادہ ہیں۔ انگریز چلا جائے گا تو حکومت کون بنائے گا؟ وہ صرف حکومت بنائے گا یا ہزار سال کا بدلہ بھی لے گا؟ ووٹ اس کے زیادہ ہیں، حکومت وہ بنائے گا تو صرف حکومت بنائے گا یا ہزار سال کے بدلے بھی لے گا؟ تو پھر سوچا کہ نہیں، ہمیں الگ ہونا چاہیے، ہم الگ قوم ہیں۔ دو قومی نظریہ۔ سر سید احمد خان مرحوم، علامہ اقبال مرحوم، قائد اعظم مرحوم، ان کا کہنا تھا کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ مذہب الگ ہے، قوم الگ ہے، تہذیب الگ ہے، دو قومی نظریہ۔ ہم نے پھر آزادی حاصل کی، اِس مطالبے پر کہ ہم آزادی لیں گے مگر ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ اس کو تسلیم کیا گیا اور پھر 14اگست 1947ء کو انگریز یہاں سے گیا ہمیں پاکستان کے نام سے یہ خطہ دے کر کہ آپ اپنی حکومت بنائیں۔ ہندوستان الگ ہوگیا اور یہ دو ریاستیں بن گئیں۔ یہ ہمارا 14اگست کا پس منظر ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بلکہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ہم نے جب یہ مطالبہ کیا نا کہ ہم الگ ہوں گے، تو کیوں ہوں گے؟ تہذیب کی بنیاد پر، مذہب کی بنیاد پر۔ ورنہ خوراک بھی ایک ہی ہے، رنگ بھی ایک ہی ہے، لباس بھی ایک ہی ہے، علاقہ بھی ایک ہی ہے، لیکن کس فرق پہ ہم تقسیم ہوئے؟ ہمارا مذہب الگ ہے، ہمارا کلچر الگ ہے، تہذیب الگ ہے۔ ایک قابلِ غور فرق ہے: علماء نے دین کا نام لیا، ہماری نئی قیادت نے تہذیب کا نام لیا۔ علماء نے کہا ہمارا دین الگ ہے اُن کا دین الگ ہے۔ انہوں نے کہا ہماری تہذیب الگ ہے ان کی تہذیب الگ ہے۔ لیکن بہرحال اس پر ہم الگ ہو گئے۔ جس بات کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں وہ بات بنیاد بنی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم، لیاقت علی مرحوم، ان کے رفقاء ، انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ کہا کہ ہماری ریاست و حکومت قرآن و سنت کی بنیاد پر ہو گی اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ ساری بحثیں ایک طرف، پہلی جو دستور ساز اسمبلی بنی اُس نے بنیادی طور پر جو فیصلہ کیا وہ ”قراردادِ مقاصد” تھی، تین باتیں:
٭حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے۔ یہاں حکم کس کا چلے گا؟ اللہ کا۔
٭حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے، کوئی طاقت سے قبضہ نہیں کرے گا، عوام کے اعتماد سے حکومت بنے گی۔
٭حکومت اور پارلیمنٹ پابند ہوں گے قرآن و سنت کے۔
یہ ہم نے اُصول طے کر دیا کہ ہمارے ملک کی دستوری بنیاد تین باتوں پر ہے: حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے۔ حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ لیکن یہ آزاد نہیں ہیں بلکہ قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ یہ ہم نے طے تو کر لیا، اس کے بعد اٹھہتر سال سے کیا ہورہا ہے، بتانے کی ضرورت ہے؟ قرآن کہاں ہے؟ سنت کہاں ہے؟ عوام کے منتخب نمائندے کدھر ہیں؟ اللہ کی حاکمیت کدھر ہے؟ ہم نے اس کو لپیٹ لپاٹ کر الماری میں رکھا ہوا ہے۔ جس کا زور چلتا ہے وہ اٹھہتر سال سے اپنا زور چلا رہا ہے۔ اب تک ہم نہ شریعت کا نفاذ کر سکے ہیں اور نہ منتخب حکومت کی گارنٹی دے سکے ہیں اور کیا ہمارے فیصلے ہم کرتے ہیں یا کوئی اور کرتا ہے؟ ہماری جنگیں کون کرواتا ہے اور جنگیں بند کون کرواتا ہے؟ ہماری ابھی جنگ ہوئی ہے کس نے کروائی ہے؟ ٹرمپ نے۔ بند کس نے کروائی ہے؟ ٹرمپ نے اور تجارتی معاہدہ؟ مذاکرات کی کوئی ٹیم گئی ہے، کسی نے مذاکرات کیے ہیں؟ تجارتی معاہدہ ہو گیا ہے جی۔ وہ کس نے کیا ہے؟ ٹرمپ نے۔ کون فرما رہے ہیں کہ میں نے کر دیا ہے؟
ہمارے فیصلے باہر ہوتے ہیں، ہماری معیشت کا کنٹرول باہر ہے، ہماری سیاسی کا کنٹرول باہر ہے اور ہماری حساسیت کا کنٹرول بھی باہر ہی ہے۔ آج ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ خود کو آزاد کہلوا سکیں۔ یہ یومِ آزادی کون سا ہے؟ اٹھہترواں ہے۔ اس یومِ آزادی کا سب سے بڑا تقاضا کیا ہے؟ یہ ہے کہ ہم نے جو تین دستوری بنیادیں طے کی تھیں اُن کو میدان میں لائیں۔ قراردادِ مقاصد ہماری اساس ہے، اگر وہ بنیاد نہیں ہے تو الگ ملک کا جواز کوئی نہیں بنتا کہ کیوں الگ ہوئے تھے۔ اگر وہ اساس ہے تو وہ کاغذوں میں نہیں ہونی چاہیے، معاشرے میں ہونی چاہیے اور دوسری بات کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، ہم خودمختاری کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایک جملہ ذرا میں سخت کہنے لگا ہوں: کسی زمانے میں ہماری پالیسیاں ریموٹ کنٹرول ہوتی تھیں، آج روبوٹ کنٹرول ہیں۔ سب نظر آ رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، کس کے کہنے پہ کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے، سب نظر آ رہا ہے۔
اِس لیے میں ساری بات کو سمیٹتے ہوئے کہ آج ہماری قومی آزادی کے دو بڑے تقاضے ہیں: پہلی بات کہ ہم اپنی آزادی کی بنیاد کو زندہ کریں، قراردادِ مقاصد کو، اللہ کی حاکمیت کو، قرآن و سنت کی بالادستی کو اور عوام کی منتخب حکومت کی گارنٹی کو واپس لائیں اور دوسری بات کہ اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل کریں۔ جب تک ہمارے فیصلے باہر ہوتے رہیں گے، کوئی بات بھی نہیں بنے گی۔ خودمختاری کا تحفظ بلکہ خودمختاری کا حصول، خودمختاری ہو گی تو تحفظ کریں گے نا۔ قراردادِ مقاصد کی عملداری، دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری اور آزادی کا حصول۔ اللہ پاک ہمیں اپنے ملک کی آزادی کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں، ملک کی وحدت و استحکام کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں، خودمختاری کے حصول کی توفیق عطا فرمائیں اور قراردادِ مقاصد کی عملداری کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یارب العالمین۔