ہم نسل ِنو کو آزادی کا مطلب نہیں سمجھا سکے!

تحریر: میمونہ تنویر
گونگی ہو گئی زباں کچھ کہتے کہتے …. ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے …. یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس پر یقین نہیں …. بس ڈر گیا خود کو صاحبِ ایماں کہتے کہتے …. میرے شیلف میں گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا …. میں ڈر گیا اُسے قرآن کہتے کہتے!
بچوں نے ضد کی کہ چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں اور موقع بھی 14 اگست کا ہے تو گھومنے پھرنے کے لیے چلیں۔ذاتی طور پر کسی بھی ایسے خاص موقع پر باہر نکلنے سے ہی میرا دم گھٹتا ہے۔ طرح طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں، طرح طرح کے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں تو دل ڈر کے مارے سکون سے گھر رہنے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔لیکن بات بچوں کی آئے تو ہم ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ موقعے کی مناسبت سے قائد پاکستان، بانی پاکستان کو خراج تحسین اور سلام پیش کیا جائے اور اُن کا شکریہ ادا کرنے کا آج سے بڑھ کے بھلا کون سا دن ہوگا۔ پیش نظر ایک وجہ اور بھی تھی کہ شاید اس جگہ کے احترام و تقدس کی وجہ سے وہاں کوئی ناخوشگوارواقعہ دیکھنے کو نہ ملے، جیسے واقعات جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چنانچہ کچھ ضروری زادراہ باندھا اور گاڑی کچھ ہی دیر میں رواں دواں تھی منزل کی طرف۔ راستہ گھر سے کافی طویل تھا۔ اِس دوران جگہ جگہ رش‘ ٹریفک جام جیسی پریشانی کا سامنا تو عام بات تھی۔ جیسے تیسے کرکے منزل کے قریب پہنچے تو عوام کا سیلاب دیکھنے کو ملا۔ دل مسرت سے لبریز ہوگیا یہ جان کر کہ چلو اپنے محسنوں کو پہچاننے کی حِس تو باقی ہے اِس قوم میں….!
لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی جب ہم گاڑی پارک کر کے گیٹ تک پہنچتے پہنچتے انسانوں کے بھنور میں پھنس گئے۔ بچے بھی صورتحال سے گھبرا گئے۔ دل کے ٹکڑے تو تب ہوئے جب اس بھنور کو طوفان بدتمیزی میں غرق دیکھا۔ بیسیوں واقعات دیکھنے کے بعددل چیخ کرسوال اٹھانے لگا:یہ ہے وہ قوم جو اپنے دین کے لیے آزاد ہوئی تھی؟ کلمہ جس قوم کے ملک کے نام کی روح ہے؟ لیکن یہاں تو ہر طرف سڑکوں پر طرح طرح کے بے ہودہ اور حیاسوز کارنامے کر کر کے آزادی منائی جارہی تھی۔ ایسے آزادی کے مظاہرے کہ اپنی آنکھیں تو شرم سے جھکی جا ہی رہی تھیں، ساتھ معصوم بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑ رہا تھا!! جیسے جیسے کرکے اس بھنور سے چھٹکارا ملا تودل شکر کے کلمے پڑھ رہا تھا، اس بات کو بھول کر کہ ہم آزادی کے دن کا اظہارِ تشکر کرنے آئے ہیں، قائد سے عہدِ وفا کی تجدید کرنے آئے ہیں، قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے ہیں بلکہ اس بات پر شکر کررہا تھا کہ باعزت بچوں کو اس انسانوں کے جنگل سے لے کر نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں!
ڈرے سہمے دل کو سنبھالے گیٹ تک پہنچ تو گئے، لیکن دل اُداسیوں اور فکروں کے اندھے کنویں میں گر چکا تھا اور حالت ایسے گونگے اور اندھے کی سی ہوچکی تھی کہ جو نہ دیکھ سکے نہ بول سکے، لیکن چاروں اور سے ڈھول ڈھمکوں کا شور، گانے بجانے کی آوازیں جو قبروں کے تقدس کو پامال تو کر ہی رہی تھی میرے اعصاب بھی منجمد کررہی تھیں۔ مزار کے باہر کے احاطے میں امرا اور شرفا کی بیٹیاں سیلفیاں اور ویڈیوز بنانے میں مصروف۔ انہی شرفا وامرا کی بیٹیاں جو کبھی خود غریب کی بچیوں کو چند سکوں اور روٹی کے ٹکڑوں کے عوض نچایا کرتے تھے۔ آج انہیں امرا و شرفا کی بیٹیاں دوپٹے کو بوجھ سمجھ کر اُتار چکیں، وہی دوپٹہ جس کو بچانے کے لیے آج کے دن چند سال پہلے لاکھوں بیٹوں نے اپنے گلے کٹوائے!!چلیں….! چند سالوں کے فرق نے اتنی سی آزادی (اس دوپٹے سے آزادی) تو حاصل کرلی! یہ سوچ کر دل خون کے آنسو رویا، دل نے یہ سوال کیا: یہ سیلفیاں یہ ویڈیوز کس لیے؟ چند لائکس چند فالورز بنانے کے لیے!
اِس سوال کے جواب میں دماغ نے ایک منظرکشی کی جس میں ایک مسلمان بچی بھاگتے ہوئے اپنا دوپٹہ سمیٹتی ہے، بھاگتے ہوئے اُسے گرنے سے بچانے کے لیے اسے دونوں بازوں میں سمیٹتی اندھا دھند بھاگے جارہی ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے بھاگنے والے اسے فالو کرنے والے اس کا دوپٹہ چھین کر نوچ کھانے کو تیار تھے، لیکن اس حیا کی دیوی نے اپنے دوپٹے کو بچانے کی قیمت اپنی جان سے کسی نہر، کسی کنویں یا پھر کسی دہکتی آگ میں کود کرادا کی اور پھر….! چند سالوں بعد اسی دھرتی پر آج کہ یہ مناظر!! میرے سامنے منظر آ جا رہے تھے اور میں سوچوں کے سمندر میں غرق یہ سوچنے پر مجبور تھی کہ ہم اپنی نسل کو بچانے میں، انہیں آزادی کا مطلب سمجھانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ جو معنی و مطلب ہمارے بڑوں نے ہمیں سمجھایا۔ اگر آج کی نسل کا یہ حال ہے تو کل آنے والی نسل کا کیا ہوگا؟ سوچوں کا تسلسل میرے بیٹے کی آواز نے توڑا جو میری سماعتوں پر مزید ہتھوڑے برسانے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا….: ”مما! آج اگر قائداعظم اپنی قبر سے باہر آجائیں تو اس گمراہ عوام کو آکر ایک ہی بات بولیں: ’تم لوگ تو غلام ہی اچھے تھے، آزاد کروا کے تو تم لوگوں پر ظلم کیاہے، غلام تھے تو اپنے دین پر مر مٹتے تھے، آزاد ہوئے تو دین سے بھی آزاد ہوگئے!“
اِس بچے کو جسے میں چھوٹا سمجھتی تھی بہت بڑی بات کرگیا! میری سانسیں یہ سوچ کر بحال ہونا شروع ہوئیں کہ شکر ہے ابھی بات الجھی تو بہت ہے لیکن بگڑی نہیں! اور اِس بات سے ایک اور بات کابھی اندازہ ہوا کہ بگاڑ آخر ہے کہاں؟ بگاڑ اس اُمت کی ماو¿ں میں ہے!! اِس اُمت کو پھر ایک بار محمودغزنوی، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی کی ماو¿ں جیسی مائیں چاہییں۔ بس ضرورت صرف اِسی امر کی ہے کہ اُمت کو پھر ایک بار سلجھی ہوئی مائیں چاہییں۔ مائیں سلجھ جائیں گی تو معاشرہ سنور جائے گا۔ اِن شاءاللہ!