خیبرپختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، ملبے سے لاشیں نکالنے اور اموات کا سلسلہ بھی نہ رک سکا۔ رابطہ پلوں اور سڑکوں کے بہہ جانے سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا، بونیر، تورغر، باجوڑ، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کے متاثرہ علاقوں میں ہر طرف تباہی، قیامت صغریٰ کا منظر، فضا سوگوار، بونیر کے متاثرہ علاقوں میں جاں بحق ہونے والے 190افراد کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ میتوں کے لیے تابوت کم پڑ گئے، پیر بابا کا گاؤں بشونڑی صفحہ ہستی سے مٹ گیا، گاؤں کا کوئی گھر سلامت نہ بچا۔ محکمہ موسمیات نے میانوالی، چکوال، تلہ گنگ اور اٹک میں نئی آفت کی پیش گوئی کر دی۔ این ڈی ایم اے نے آنے والے دنوں میں پنجاب کے مختلف مقامات پر کلاوڈ برسٹ اور مقامی سطح پر سیلاب کا خدشہ ظاہر کر دیا۔
پاکستان طویل عرصے سے مسلسل کلائمیٹ چینج کے انجام و عواقب اور اثرات و مظاہر کا سامنا کر رہا ہے اور ہر سال یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے اور اس میں نقصانات اور مسائل کا اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس بار جو کچھ ہو رہا ہے، ایسا نقصان قریب کے عرصے میں کبھی نہیں ہوا۔ جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں موسمی تغیرات کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ بد سے بدتر شکل میں سامنے آرہے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، خدشہ ہے کہ ابھی سے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور بچاؤ کے ضروری ماحولیاتی اقدامات کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی تو آنے والا وقت بہت کڑا ہوگا اور پاکستان کو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑے پیمانے پر مشکلات، نقصانات اور گہرے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بونیر میں جس طرح کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں تباہی پھیلی، وہ انتہائی الارمنگ اور پوری قوم کیلئے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ کسی خاص علاقے میں اتنے بڑے پیمانے پر ایسی تباہی کی مثالیں ماضی میں بہت کم ہی ملتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات کو کسی پیشگی اقدام سے نہیں روکا جا سکتا۔ قدرت کی طرف سے جو ہونی مقدر اور طے شدہ ہوتی ہے وہ لاکھ سائنسی و انتظامی تدبیر سے بھی نہیں ٹل سکتی اور ہوکر ہی رہتی ہے، تاہم ہو چکنے کے بعد پوسٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کیلئے پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور یہ بہت ضروری ہے۔ ان اقدامات اور تدابیر کے نتیجے میں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کوئی حادثہ سانحے اور سانحہ ایسے المیے میں نہ ڈھلے جس سے پوری ریاست اور متاثرہ آبادی اور علاقہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ جائے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع خصوصاً بونیر، تورغر، باجوڑ، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام اس وقت شدید تباہی اور بربادی کے منظر پیش کر رہے ہیں۔ کلاوڈ برسٹ اور موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں پہاڑوں سے مٹی اور پتھروں کے تودے گرنے، رابطہ پلوں اور سڑکوں کے بہہ جانے اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے بعد فضا سوگوار ہے۔ بونیر میں محض ایک دن میں 190 افراد کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ پورا گاؤں بشونڑی ملبے میں دب کر ختم ہوگیا۔ یہ مناظر کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ پاکستان ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ پاکستان کاربن کے عالمی اخراج میں نہ ہونے کے برابر کردار رکھتا ہے۔ اس بار جو کچھ خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں ہوا ہے، وہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک الارمنگ اشارہ ہے کہ آنے والا وقت مزید کٹھن اور مہلک ہوگا۔ ماضی میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سیلابوں کے بعد بھی ہم نے سبق حاصل نہیں کیا۔کلائمیٹ چینج کے تناظر میں پاکستان میں ہونے والی بارشیں اب پہلے سے مختلف انداز میں برس رہی ہیں۔ کہیں بادل پھٹنے (کلاوڈ برسٹ) کی صورت میں چند گھنٹوں میں مہینوں کے برابر بارش ہوتی ہے، تو کہیں گلیشیئرز اچانک پگھلنے سے طوفانی ریلے آ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے کناروں، آبی گزرگاہوں اور پہاڑی علاقوں میں بے تحاشا تجاوزات، غیر منصوبہ بند آبادیاں، درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی بے احتیاطیاں تباہی کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی عام بارش بھی بڑے سانحے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
بونیر کے متاثرہ علاقوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مقامی بستیاں پانی اور ملبے کی لپیٹ میں آکر مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ اگر یہی کیفیت کسی شہری یا میدانی علاقے میں پیش آئی تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسانی اور مالی نقصان کس قدر بڑا ہوگا۔ شہروں میں موجود کچی آبادیاں، ناقص نکاسی آب کا نظام اور غیر قانونی تعمیرات صورتحال کو مزید بھیانک بنا دیں گی۔ اس سارے منظرنامے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ریاستی اور انتظامی ادارے تاحال کسی جامع اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ موجود نہیں۔ نہ ہمارے پاس سیلاب کی فوری وارننگ کے جدید سسٹمز ہیں، نہ پہاڑی علاقوں میں ایمرجنسی ریسکیو کے لیے ضروری سامان اور تربیت یافتہ عملہ، نہ ہی شہری علاقوں میں نکاسی آب اور حفاظتی ڈھانچوں کی درست منصوبہ بندی۔ یہ وہ غفلت ہے جس نے چھوٹے حادثوں کو بڑے سانحوں اور بڑے سانحوں کو قومی المیوں میں بدل دیا۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ہر قدرتی آفت کے بعد بحالی اور تعمیر نو پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی کمزور اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ایسے میں بار بار آنے والی قدرتی آفات ملکی وسائل کو مزید کھا جاتی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکھی گئی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ یوں ملک ایک نہ ختم ہونے والے خسارے اور معاشی بحران کے دائرے میں پھنسا رہتا ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے ماحول دوست پالیسی اختیار نہ کی، تو آنے والے برسوں میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع بڑھے گا بلکہ معاشی لحاظ سے بھی پاکستان مزید کمزور ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اور فیصلہ ساز ادارے اس سنگین مسئلے کو کبھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کر پائے۔ ہماری سیاست وقتی اور انتخابی فائدوں کی اسیر ہے۔ کلائمیٹ چینج جیسے سنجیدہ موضوعات پر قومی سطح پر کوئی ڈائیلاگ نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیات اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو قومی سلامتی کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے، کیونکہ یہ معاملہ براہ راست عوام کی جان، مال اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے سامنے یہ مقدمہ رکھنا ہوگا کہ وہ اپنے کاربن اخراج کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو فنڈز، ٹیکنالوجی اور وسائل فراہم کریں تاکہ وہ کلائمیٹ چینج کے اثرات سے نمٹ سکیں۔