طوفانی بارشیں، سیلاب اور ہماری ذمہ داری

خیبر پختونخواہ میں شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں تباہ کاریوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بارشوں، بادل پھٹنے، سیلاب اور آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات میں تقریباً چار سو سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی اور لاپتہ ہوگئے۔ درجنوں مکانات کے منہدم ہونے کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، بچے اور خواتین بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔ کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور رابطہ پل اور سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ چلاس میں فصلیں، مکانات، باغات، رابطہ پل اور واٹر چینل تباہ ہوگئے۔ آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں سیلابی ریلے دریا پر بنے چھ رابطہ پل بہا لے گئے۔ مینگورہ خوڑ میں شدید طغیانی کے باعث سیکڑوں مکانات مکمل طور پر ملیامیٹ ہو گئے اور لوگ گھروں کی چھتوں پر محصور ہو کر رہ گئے۔

حالیہ سیلاب نے نہ صرف انسانی جانوں کو نگلا ہے بلکہ وسیع پیمانے پر املاک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کا فلڈ ریلیف آپریشن جاری ہے۔ پاک فوج کی ٹیمیں متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد، ریسکیو اہلکار، ریونیو عملہ اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار بھی ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کے سبب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو خیبرپختونخوا میں بھرپور امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی ہدایت کر دی ہے۔

سیلاب کی یہ تباہ کاریاں دردناک اور افسوسناک ہیں۔ ہمیں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ تیار اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت سیاست سے بالا تر ہو کر قومی سطح پر ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنے لوگوں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔ وطن عزیز میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجوہات میں قدرتی اور انسانی دونوں عوامل شامل ہیں۔ ہمارے یہاں پہاڑی علاقوں میں جنگلات کی بے تحاشا کٹائی نے زمین کی پانی جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی سے مٹی کا کٹاؤ بڑھتا ہے اور پانی تیزی سے نیچے کی طرف بہتا ہے، جس سے سیلابی ریلوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، دریاؤں اور ندی نالوں کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات نے پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستوں کو تنگ کر دیا ہے، جس سے پانی آبادی والے علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وطن عزیز میں نام نہاد سیاسی و متعصبانہ سوچ کی وجہ سے پانی کے ذخائر اور ڈیموں کی کمی ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔

بارش کا وافر پانی مناسب ذخیرہ گاہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے اور سیلابی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر یہ پانی ڈیموں میں ذخیرہ کر لیا جائے تو اسے نہ صرف سیلاب کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ خشک سالی کے دوران آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں میں حصہ لینا اور مقامی سطح پر ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کو ترجیح دینا ہوگی۔ اس میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات کا آغاز کرنا، جنگلات کی کٹائی کو سختی سے روکنا اور متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا شامل ہے۔ ہمیں نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا ہوگا تاکہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے اور اسے خشک سالی کے دوران استعمال میں لایا جا سکے۔

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کے لیے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔ موجودہ حالات میں حکومت، عوام اور تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچایا جا سکے۔ پاک فوج خود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کو نہ پہنچتی تو جتنے نقصانات ہو چکے اور ہوتے جارہے ہیں اُس سے کہیں زیادہ آفت ٹوٹتی۔ قوم مصیبت کے ان لمحات میں فوج کے تعاون اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب کی سنگین صورتحال میں مخیر افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مثاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔ بلاشبہ انسانوں کی بے لوث خدمت کے لیے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔