قدرتی آفات۔ موسمیاتی تبدیلی یا ’ہارپ‘ ٹیکنالوجی کا کرشمہ؟

رپورٹ: علی ہلال
گزشتہ کئی برس سے عالمی سطح پر جنگلات میں ہونے والی بڑی آتشزدگیاں، تباہ کن زلزلے اور کلاوڈ برسٹ اور آسمانی بجلیاں گرنے کے باعث آنے والے قاتل سیلابوں نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین ان تباہیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں (کلایمنٹ چینجنگ) سے جوڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب کچھ دیگر حلقوں کا ان قدرتی آفات سے متعلق الگ نظریات ہیں جسے ’سازشی تھیوری‘ بھی کہاجاتا ہے۔ تاہم متعدد رپورٹوں سے ان شکوک وشبہات کو تقویت بھی ملتی ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے قدرتی آفات میں کہیں نہ کہیں انسانی ہاتھوں کا عمل دخل بھی ہے۔ یہ عمل دخل مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے جس میں درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کا صفایا، صنعتی فیکٹریوں کی کثرت، بارود اور کیمیکل کا استعمال وہ وجوہات ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ موسموں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
قدرتی آفات کے پیچھے جن انسانی عوامل کی موجودگی کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے اُن میں ’ہارپ‘ ٹیکنالوجی کا نام بھی سرفہرست ہے۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق ہارپ ٹیکنالوجی (Haarp Technology) (High frequency active auroral research program) کا نام ہے جو ایک امریکی تحقیقی منصوبہ تھا۔ اس کا مقصد زمین کے بالائی فضائی حصے آئنوسفیر (ionosphere) کا مطالعہ اور اس کے اثرات کو سمجھنا تھا۔ یہ منصوبہ 1993ء میں شروع ہوا اور الاسکا (Alaska) میں اس کی بڑی ریسرچ سہولت قائم کی گئی تھی۔ ہارپ ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق Ionosphere زمین کے اوپر موجود ایک تہہ ہے جو ریڈیو ویوز کو منعکس کرتی ہے اور ان کی لمبی دوری تک ترسیل ممکن بناتی ہے۔ HAARP میں High frequency طاقتور ریڈیائی لہریں فضا کی اس تہہ کی طرف بھیجی جاتی تھیں تاکہ وہاں کے ذرات کو متحرک کرکے ان کے رویے کو سمجھا جاسکے۔ یہ سائنسی طور پر ریڈیو کمیونیکیشن، نیویگیشن سسٹمز اور فوجی مقاصد کے لیے ریسرچ کے کام آتا تھا۔
ہارپ ٹیکنالوجی کے دفاع میں بولنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مقصد ریسرچ ہے۔ زمین اور خلا کے تعلق، ریڈیو سگنلز اور کمیونیکیشن سسٹم کو سمجھنا اس کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ نیز اس کے ملٹری پہلو بھی ہیں۔ چونکہ امریکی فضائیہ اور بحریہ اس منصوبے کے شریک تھے، اسی لیے اس پر مختلف سازشی نظریات مشہور ہوئے۔ بعض رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کا مقصد ذہنوں پر کنٹرول ہے جبکہ بعض دیگر حلقوں کے مطابق اس کا مقصد افق کو کنٹرول کرکے بارشیں برسانے، بجلیاں گرانے برف باری کروانے اور زلزلے کروانے کے لیے کام میں لایا جاسکتا ہے۔
فروری 2023ء میں ترکیہ اور شام میں کو آنے والے زلزلے نے ترکیہ اور شام کو ہلا کر رکھ دیا اور 44 ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی۔ اس واقعے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لاکھوں پوسٹس سامنے آئیں جن میں اس تباہی کے بارے میں معلومات، تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئیںجس میں اس زلزلے کو ’ہارپ‘ تحقیقاتی منصوبے کی تنصیبات سے جوڑ دیا تھا۔ یہ منصوبہ امریکا کی الاسکا ریاست میں قائم ہے اور اس میں طاقتور ریڈیو ٹرانسمیٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے آلات آئنوسفیر (Ionosphere) کا مطالعہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو زمین کے فضائی غلاف اور خلا کے بیچ کا علاقہ ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ’ہارپ‘ کا ذکر کرنے والے منفرد اکاونٹس کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ تحقیق کے مطابق اسے 5 لاکھ 50 ہزارزیادہ بار ذکر کیا گیا۔2024ء میں اسپین میں سیلاب آیا جس میں دو سو سے زائد انسان جان ہارگئے جس کے بعد ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کے دعوے سامنے آئے۔ چونکہ یورپی ممالک میں اسپین واحد ملک تھا جس نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے سبب اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے اور اسلحہ کی سپلائی کے معاہدے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اس بنیاد پر جب چند دن بعد اسپین میں سیلاب نے تباہی مچائی تو سب نے یہی دعویٰ کردیا کہ اس کے پیچھے ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ مراکش، ترکی اور شام کے زلزلے جبکہ لیبیا میں آنے والے سیلاب کی تباہی کو ہارپ ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ تاہم دوسری جانب ماہرین کے مطابق یہ خالی سازشی تھیوری ہے حقیقت سے اس کا دور سے بھی تعلق نہیں ہے۔