بلوچستان، کے پی میں امن کیلئے سب کو لائحہ عمل بنانا ہوگا،مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بدامنی کے خاتمے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

ریاست کو بدامنی کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے،افغان مہاجرین کی 40سال تک مہمان نوازی کی ہے انہیں جبراً بے دخل کرنے کی پالیسی ترک کی جائے اور اس حوالے سے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر فیصلے کیے جائیں۔

اتوار کو اے این پی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس اے پی سی میں ملک کی حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی پارٹیوںکی نمائندگی موجودہے اور ایسے مجالس کا انعقاد ضروری ہے جہاں پر کھل کر باتیں کر سکیں۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت چھوٹے صوبوں میں بدامنی کی صورتحال ہے اور ریاست کی اولین ذمہ داری انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔انہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا،بلوچستان یا سندھ میں آج ہر شخص غیر محفوظ ہے ملک میں اندھیر نگری ہے اور قبائلی علاقہ جات مسلح گروہوں کی گرفت میں ہیں۔تاجر کاروبار نہیں کرسکتے۔

ہر شخص کو بھتہ دینا پڑتا ہے اور سرکاری طور پرمنظور شدہ فنڈزکا 10فیصد باقاعدہ طور پر ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت سی پیک روٹ پر گھنٹوں ان مسلح افراد کا قبضہ رہتا ہے اور گاڑیوں کی چیکنگ کی جاتی ہے یہ حکومت کی رٹ کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے معدنی ذخائر اور وسائل عوام کی ملکیت ہیں اس حوالے سے ہمار ے ملک سمیت دنیا میں قوانین موجود ہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاہدے ہوتے ہیں اورسب کا اپنا حصہ ہوتا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے زریعے صوبوں کو اس کے وسائل کا مالک قرار دیا گیا ہے مگر آج یہ وسائل واپس لئے جارہے ہیں اس حوالے سے قبائل اور عوام سمیت سیاستدانوں کو بیدار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ہمیں اپنے اختلافات کو پس پشت رکھنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے ووٹ کے حق پر ڈاکا ڈالنا نہ کل جائز تھا نہ آج جائز ہے اور نہ ہی آئندہ جائز ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کی بات کی جاتی ہے میں اس اجلا س میں موجود تھا اس کے کچھ حصوں پر ہمارے اعتراضات تھے مگر ہمارے اعتراضات نہیں سنے گئے ہم آج بھی کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے امتیازی حصوں کو نکالا جائے۔

انہوں نے کہاکہ اگر نیشنل ایکشن پلان کے متنازعہ حصوں کو نہ نکالا گیا تو یہ تمام سیاسی جماعتوں کامتفقہ پلان نہیں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ملک میں امن لانے کیلئے مستحکم معاشی منصوبہ بنایا جائے۔انہوں نے کہاکہ یہاں پر افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی کا مسئلہ چلا آرہا ہے انہوں نے کہاکہ افغانیوں نے گذشتہ چالیس سال سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے اگر وہ اپنا پیسہ نکالیں تو بنک دیوالیہ ہوجائیں۔