پاک و ہند جنگی خطرہ سر پر کسی بڑے پرندے کی طرح پر کھولے منڈلا رہا ہے۔ یہ پرندہ کس وقت اور کہاں اُتر جائے گا کہا نہیں جا سکتا۔
پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مصدقہ اطلاعات ہیں کہ 24 سے 36 گھنٹے میں بھارت کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم بھرپورجواب کے لیے تیار ہیں۔ وزیر دفاع پہلے ایک دو انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ تین چار دن انتہائی اہم ہیں۔ جب تک یہ تحریر آپ تک پہنچے گی ممکن ہے کئی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہوں۔ صورتحال تیزی سے اس طرح بدل رہی ہے کہ صبح کی خبریں شام تک پیچھے چلی جاتی ہیں۔ بیانیے کی جنگ عروج پر ہے اور زمین پر جتنی کشیدگی ہے اس سے زیادہ سوشل میڈیا جنگ میں ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستانی عوام میں پریشانی یا گھبراہٹ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ میں سوچتا ہوں کہ جنگ بہرحال پاکستان کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔
جنگ میں دونوں طرف کا جانی اور معاشی نقصان لازمی ہے خواہ وہ محدود جنگ ہی کیوں نہ ہو۔ گھبراہٹ اور پریشانی تو نقصان دہ ہوتی ہے لیکن اس لحاظ سے جتنی سنجیدگی عوام میں ہونی چاہیے وہ بھی موجود نہیں ہے۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے کہ افراتفری نہیں ہے لیکن خدانخواستہ ایک ممکنہ جنگ کے لیے ذہنی طور پر جتنی تیاری چاہیے وہ نظر نہیں آ رہی۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ اعتماد کہ پاکستان کے پاس وہ صلاحیت موجود ہے جس میں بھارت کوئی بڑی کارروائی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا کہ کب کہاں اور کتنی کارروائی کی جائے۔ عوام کا اپنی ریاست پر یہ اعتماد ہونا بہت اچھی بات ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ پاکستانی فطری طور پر دوسری قوموں کی نسبت نڈر قوم ہیں۔ خطرے کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی گھروں سے نکل کر فضائی جنگوں اور معرکہ آرائیوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ یہ طرزِ عمل درست ہو یا نہیں قوم کے مجموعی مزاج کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی شامل کر لیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان مسلسل براہِ راست یا بالواسطہ جنگیں بھگتتا رہا ہے اور لوگ انہیں جھیل جھیل کر عادی ہو چکے ہیں۔ وہ اقوام جنہوں نے سختی دیکھی ہی نہیں ان کے برعکس ایک سخت جان قوم کو دباو میں رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
پاکستان کے لیے بھارت سے مقابلہ دوسرے ملکوں کے تناو سے بالکل الگ ہے۔ اس مقام پر آکر سب الگ الگ دھاگے آپس میں گرہیں لگا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ بھارتی خطرے کے وقت پانچوں انگلیاں ایک مکے کی شکل اختیار کر لیں۔ میں گزشتہ چند سال سے عمران خان کا ناقد رہا ہوں لیکن جیل سے آنے والے ایک بیان نے دل میں ٹھنڈک ڈالی ہے۔ اس بیان کا انتظار تھا اور یہ قدرے تاخیر سے سہی ایک بڑا پیغام دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق خان صاحب نے کہا کہ ”امن ہماری ترجیح ہے لیکن اسے بزدلی نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے پاس کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں آر ایس ایس خطے کے لیے خطرہ ہے۔“ ایسے میں جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی میڈیا اور حکومت دونوں کی توپوں کا رخ پاکستانی فوج بالخصوص چیف آف آرمی سٹاف کی طرف ہے اور پی ٹی آئی کو خاص طور پر یہ لوگ اپنے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں یہ بیان بہت اہم ہے۔
میں خان صاحب کی ان خوبیوں کا اعتراف 2019ء میں بھی کرتا رہا ہوں اور آج بھی معترف ہوں۔ آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی حتمی اجازت اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے دی تھی اور اسد عمر کے حالیہ انٹرویو میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان کی اس وقت یہی رائے تھی کہ ہمیں لازماً بھرپور جواب دینا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں خان صاحب کی ولولہ انگیز تقریر بھی بھولی نہیں جا سکتی جس کی کئی مسلم ممالک نے بھی بھرپور تالیوں سے پذیرائی کی تھی۔ یہ پیغام بھارت کو چلا گیا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پوری قوم متحد ہے۔ اگر پی ٹی آئی اس وقت ریاست کے ساتھ نہ کھڑا ہونے کی غلطی کرتی تو اسے سیاسی طور پر بھی بے حد نقصان ہوتا۔
جنگی حالات میں فوجوں کے کمانڈر بدلے نہیں جاتے، لیکن پاکستانی میڈیا کے مطابق بھارتی شمالی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایم وی ایس کمار کو اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات غیر معمولی صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اخباری اطلاعات کہتی ہیں کہ انہیں گرفتار کرکے دہلی بھی لے جایا گیا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ جنرل کمار نے لائن آف کنٹرول پر فوری پیش قدمی کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہ ان پر اہم فوجی ڈیٹا افشا کرنے کا الزام ہے۔ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ الزامات کس حد تک مصدقہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اور اخبارات نے ان خبروں کا بلیک آوٹ کیا ہے، البتہ ایک دو جگہ سربراہی تبدیلی کی خبریں دی گئی ہیں۔ اسی طرح بھارتی اخبارات میں یہ خبر بھی نظر نہیں آتی کہ لائٹ انفنٹر ی کے پانچ سکھ فوجیوں کو بارہمولا میں ایک دوسری بٹالین کے فوجیوں نے فائرنگ کرکے مار دیا ہے۔ فضائی اور بحری مشقیں دونوں ملکوں کی جاری ہیں اور لاہو ر سے اسلام آباد تک کی فضائی حدود ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کردی گئی ہیں۔
بھارت کا ایک مدت سے دعویٰ ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کردیا گیا ہے۔ یہ عجیب تنہائی ہے کہ ایک طرف چین کھل کر پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے دوسری طرف ترکیہ نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کا ساتھ دیا ہے۔ ادھر ایران نے پاکستان سے مسلسل رابطہ رکھا ہے اور ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ستمبر 2024ء میں علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ”ہم مسلمان نہیں ہو سکتے اگر ہم میانمار، غزہ، بھارت یا دوسری جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم سے غافل ہوجائیں۔“ اس وقت بھارتی وزارتِ خارجہ نے سخت الفاظ میں اس کا جواب دیا تھا۔ دو ماہ پہلے فروری 25 میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا اور اسی کے ساتھ ملائیشیا اور انڈونیشیا کا بھی دورہ کیا تھا۔ ترکیہ پاکستان ملائیشیا اور انڈونیشیا جغرافیائی لحاظ سے اہم ممالک ہیں۔ اگر اردوان ان چاروں ممالک کا ایک بلاک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کے دفاعی معاہدے بھی ہوں تو یہ بہت اہم پیشرفت ہوگی۔ پاکستان اور ترکیہ پہلے ہی ترکیہ کے ففتھ جنریشن فائٹر ”کان“ میں ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنے کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ ڈرونز بحری جہازوں اور آبدوزوں سمیت کئی معاملات میں ترکیہ نے پاکستان کی مدد کی ہے۔
اِس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ دوسری طرف بھارت کا کوئی ہمسایہ اس سے خوش نہیں ہے۔ بھارت کو پاکستان چین اور بنگلا دیش تینوں طرف سے خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ کسی طرف سے بھی فوجیں اور جہاز ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ نیپال چین کی طرف جھک چکا ہے۔ مالدیپ بھارت مخالف ہو چکا ہے۔ سری لنکا بھارت سے خوش نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ بھارت خود علاقائی تنہائی کا شکار ہے۔ عالمی طاقتوں میں روس یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے، اس لیے بھارت اس کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ امریکا نے اس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح بھارت چاہتا تھا۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر بھارت مکمل بھروسہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسرائیل کے سوا کسی ایک ایسے ملک کا نام لینا مشکل ہے جو بھارت کا کھل کرساتھ دے سکے اور اسرائیل خود اپنی مشکلات میں بھی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مودی کی بہار انتخابات میں پاکستان مخالف جذبات کیش کرانے کی شدید خواہش نے بھارت کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ نریندر مودی سیاسی فائدے سے اوپر نہیںدیکھتا۔ اگر اس سیاسی فائدے کو ایک طرف رکھ دیں تو بھارت کے لیے یہ جنگ اور کشیدگی کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں ہے۔افراد ہوں یا ملک مشکل دِنوں کا سبق یہی ہوتا ہے کہ زبانی جمع خرچ والے دوستوں کے ہجوم کے بجائے وہ چند دوست بہتر ہوتے ہیں جو مشکل میں عملی ساتھ دے سکیں
ہم سفر چاہیے ہجوم نہیں
اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے