”امن” پرسکون اور خوشگوار زندگی کی بنیاد ہے۔ اس کا مطلب ہے فتنوں اور شرور سے حفاظت، اطمینان، سکون، خوشحالی اور ترقی۔ امن دراصل اس کیفیت کا نام ہے، جب انسان کو اپنی جان، عزت، مال اور کمائی کے حوالے سے کسی خوف یا اندیشے کا سامنا نہ ہو۔ قرآن مجید امن کی اہمیت کو بار بار اجاگر کرتا ہے۔ اسلام خود ”امن” اور ”سلامتی” کا پیغام ہے۔ ”ایمان” لغت میں امن ہی سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے: سکون کا احساس، اور ”اسلام” بھی ”سلام” سے نکلا ہے، یعنی سلامتی۔ ”السلام” اللہ تعالیٰ کا ایک مبارک نام بھی ہے۔ امن ایک عظیم نعمت اور بڑی عنایت ہے۔ اس کی قدر و قیمت صرف وہی جانتا ہے جس نے کبھی سفر یا حضر میں اس کی کمی کی آگ میں جل کر خوف، بے چینی، دہشت اور دن رات کے اضطراب کا سامنا کیا ہو۔ امن وہ بلند مقصد ہے جس کی طلب ہر فرد، معاشرہ، قوم اور ہر حکومت کو رہتی ہے۔ امن کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میری پردہ پوشی فرما اور میرے خوف کو امن سے بدل دے۔” ابوداؤد۔ نظامِ امن اگر ٹوٹ جائے تو خونریزی، فساد اور ظلم سماج کا مقدر بن جاتے ہیں۔ امن وہ ستون ہے جس کے بغیر نہ معاشرتی ترقی ممکن ہے اور نہ معاشی فروغ۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے متحدہ عرب امارات نے عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے۔
چنانچہ 2025کے وسط میں نمبیو پلیٹ فارم کے جاری کردہ سیکورٹی انڈیکس کے مطابق متحدہ عرب امارات دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں پہلے نمبر پر رہا۔ 85.2پوائنٹس کے ساتھ یہ کامیابی امارات نے محض دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حاصل کی ہے۔ یہاں نہ صرف جان و مال کی حفاظت یقینی ہے بلکہ سماجی استحکام اور انصاف سب کے لیے یکساں ہے۔ یہ کامیابی حکمرانوں کے اس وژن کا نتیجہ ہے جس نے 200سے زیادہ قومیتوں کے افراد کے لیے ایسا محفوظ ماحول فراہم کیا ہے جہاں ہر شخص قانون کو اپنی ذات سے بالاتر سمجھتا ہے۔
یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ کچھ عرصہ قبل انہی صفحات پر ہمارا ایک کالم ”امن کا جزیرہ، شعور کا نمونہ” کے عنوان سے شائع ہوا تھا، جسے بیشتر پاکستانیوں نے سراہا، مگر بعض کی جانب سے طنزیہ تبصرے بھی موصول ہوئے، جن سے ایسا محسوس ہوا کہ شاید ہمارے معاشرے میں ”امن و قانون” کو اسلامی قدر کے طور پر وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ اس لیے وہ فقط ”مسلم ملک” لکھنے پر بھی چیں بجبیں نظر آئے۔ ہماری رائے میں اگر کسی ملک کا آئین شریعتِ اسلامی کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم کرتا ہے، تو وہ صرف ”مسلم ملک” ہی نہیں، ”اسلامی ملک” کہلانے کا بھی مستحق ہے، چاہے وہ مکمل طور پر اسلامی احکام پر عمل نہ کر رہا ہو۔ حقیقت میں اگر نہیں تو حکمی طور تو ہے ہی، چنانچہ علامہ ابنِ مفلج حنبلی دارالسلام کی تعریف میں احکامِ اسلام کے غلبہ کو بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ” ہر وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کے احکام کا غلبہ ہو، دارالاسلام ہے۔” امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی دارالاسلام کی تعریف میں امن کو بنیاد بناتے ہیں نہ کہ صرف اسلام یا کفر کو۔ دیکھیے بدائع الصنائع۔
ان تعریفات کی روشنی میں یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ دار الاسلام ہر وہ خطہ ہے جہاں اسلامی شعائر کا علانیہ اظہار کیا جاتا ہو، جیسے اذان، جماعت کے ساتھ نماز، جمعہ کی نماز اور اس جیسی دیگر عبادات اور وہاں کے باشندے اسلام سے وابستہ اور اس کے احکام کو نافذ کرنے والے ہوں۔ اگر کسی ملک کے مسلمان حکمران کے بعض فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے خلاف بھی ہوں تب بھی اس کی وجہ سے دار الاسلام کا حکم تبدیل نہیں ہوگا، جب تک اس کے باشندے مسلمان اور اپنے حاکم کے طرز عمل سے بیزار ہوں۔
متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اگر اپنے ملک میں امن قائم رکھا ہے تو یہ اسلام کی اس تعلیم پر عمل ہی ہے جو امن کو دین کی اساس قرار دیتی ہے۔ اگر فقط دینی اعتبار سے بھی پاکستان اور امارات کا تقابلی جائزہ لیا جائے، تو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا ملک کئی حوالوں سے زوال کا زیادہ شکار ہے۔ بطور مثال عرض کروں گا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اسلام اسے محض ایک عمل کے طور نہیں بلکہ بطور ایک نظام بیان کرتا ہے۔ ٹریفک کا بہترین سسٹم قرآن کی کئی آیات اور کئی احادیث سے ثابت ہے، میرے اور آپ کے پیارے ملک پاکستان میں اس کا کیا حال ہے؟ قتل وغارت، چوری، ڈاکے، رشوت، بے انصافی، فرقہ واریت، تعصب، ریپ کے بڑھتے واقعات، جھوٹ، دھوکہ، بغض، نفرت، حسد الغرض کونسی ایسی برائی ہے جو میرے ملک میں بڑے پیمانے پر عام نہیں ہے؟ لیکن شاید یہ برائیاں اب ہماری نظر میں جرائم میں شمار نہیں ہوتیں!
المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی منفی زیادہ اور مثبت کم سوچتے ہیں۔ امارات میں آکر ہم دسیوں اسلامی چیزیں نظر انداز کرکے چند مخصوص جگہوں پر ہماری نظر صرف مختصر کپڑوں پر ٹکتی ہے۔ حالانکہ امارات سے کہیں زیادہ بے حیائی اور دیگر جرائم ہمارے اپنے ملک میں موجود ہیں۔ چند سال قبل بطور مزاح ایک مولانا صاحب سے کہا تھا کہ امارات میں کسی گناہ کا ارتکاب بھی سلیقے اور ضابطے کے تحت ہوتا ہے۔ یوں ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ پاکستان کی طرح جو جب بھی کچھ کرنا چاہے کر گزرے۔ وہ اللہ کے ہاں تو جرم ہوتا ہی ہے لیکن کم از کم اس سے کوئی اور انسان ڈسٹرب نہیں ہوتا۔ سو عرض یہ ہے کہ اگر پاکستان کو ہم فخر سے ”اسلامی جمہوریہ” کہتے ہیں تو امارات کو کیوں نہیں کہا جا سکتا جو اپنے آئین میں اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیتا ہے اور شریعت کو قانون سازی کا بنیادی ماخذ بتاتا ہے، جہاں تمام اماراتی شہریت کے حامل بنیادی طور پر مسلمان ہیں۔ حکمران النہیان اور المکتوم خاندان خود مالکی سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ کچھ قیود کے ساتھ دوسرے مذاہب کے آزادانہ عمل کی اجازت دیتا ہے؟یہ اعتراض دراصل ہماری اس عادت کا عکاس ہے جس میں ہم دوسروں کی خوبیاں تسلیم کرنے سے جھجکتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ امارات اس وقت امن و قانون کے اعتبار سے اسلامی دنیا کا وہ روشن چہرہ ہے جو دنیا کو بتا رہا ہے کہ جب قانون کی بالادستی اور انصاف قائم ہو تو معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ کیا یہ ہم سب کے لیے سبق نہیں کہ ہم طنز کی بجائے سیکھنے کی روش اپنائیں اور اپنے ملک میں بھی اسی طرح قانون اور نظم کو غالب کرنے کی کوشش کریں؟