حرام گوشت کی فروخت پر قانون سازی کی ضرورت

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک ہزار کلوگرام گدھے کا گوشت برآمد ہوا جبکہ پچاس سے زائد زندہ گدھے بھی برآمد کیے گئے جنہیں ذبح کیا جانا تھا۔ اس خبر سے پورے ملک میں تھرتھلی سی مچ گئی۔ لیکن چند ہی روز میں یہ تھرتھلی ختم ہو گئی۔ لوگ اس واقعہ کو بھی گئے دنوں کی معصوم لغزشوں کی طرح بھول بھال گئے ہیں۔

ابھی دو روز قبل حویلی لکھا میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور سپیشل برانچ کی ایک کارروائی کے دوران مردہ مرغیوں سے بھرے 2 لوڈر رکشے پکڑے گئے جن سے 1770کلو یعنی قریباً 44من مردہ مرغیاں برآمد ہوئیں۔ پتا چلا ہے کہ مردہ مرغیوں کا گوشت مختلف جگہوں میں فوڈ پوائنٹس پر سپلائی کیا جانا تھا۔ سپلائرز کے خلاف تھانہ حویلی لکھا میں ایف آئی آر درج کروا دی گئی۔ ساتھ ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ خوراک کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ خبر کا یہی پہلو مضحکہ خیز ہے کیونکہ مردار گوشت کے معاملے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آہنی ہاتھ دیے ہی نہیں گئے جس کی وجہ سے یہ مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والے کئی مرتبہ پکڑے گئے ہیں مگر یہ مکروہ دھندا کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

گدھے کے علاوہ مردہ مرغیوں کا گوشت فروخت کرنے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ گرمی کے موسم میں تو یہ کام بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ برائلر مرغی بہت نازک مزاج ہوتی ہے۔ موسم کی سختی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر گرمی کا موسم تو اس کے لیے بڑا ہی شدید ہوتا ہے۔ بہت سی مرغیاں پولٹری فارم میں گرمی کی حدت سے مر جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جب مرغیاں سپلائی کی جاتی ہیں۔ تو سپلائی والی گاڑی میں سینکڑوں مرغیاں لدی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شدید حبس ہو جاتا ہے اور بہت سی مرغیاں سپلائی کے دوران بھی مر جاتی ہیں۔ شدید گرمی میں مرغیاں موسم کی سختی برداشت نہ کرتے ہوئے مر جاتی ہیں۔ بہت دفعہ ان مرغیوں کو ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ زندہ مرغیوں کے ساتھ ہی یہ مرغیاں بھی ہوٹلوں، ریستورانوں، بیکریوں اور برگر شوارما بنانے والوں کو کم قیمت پر فروخت کر دی جاتی ہیں۔ پولٹری فارمز والے بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں جبکہ فاسٹ فوڈ اور دیگر پراڈکٹ بنانے والے سستا گوشت حاصل کر کے اپنے منافع کا مارجن بڑھا لیتے ہیں۔ رہے گاہک تو ان کی فکر کس کو ہے۔ گاہکوں کی فکر وہ کرے جسے اپنی آخرت کی فکر ہو۔ دنیاوی منافع کی خاطر دینی نقصان کر کے گھاٹے کا سودا کرنے والے موت کو بھی بھولے ہوئے ہیں اور دینی تعلیمات سے بھی بے بہرہ ہیں۔

لوگوں کو مردار گوشت کھلانے میں قصائی حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ مردہ بھینس، گائے، بچھڑا اور بکرا وغیرہ فوراً خرید لیتے ہیں۔ گوشت پر ویٹرنری ڈاکٹر کی مہریں لگانا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اکثر کے پاس تو اپنی مہریں موجود ہوتی ہیں۔ مہر نہ بھی ہو تو صحت مند گوشت کے ساتھ ٹکڑوں کی صورت میں گاہکوں کو مردہ گوشت بھی فروخت کر دیا جاتا ہے۔ مردہ جانور یا گدھے کا گوشت فروخت کرنے کے پیچھے لالچ کے علاوہ جذبہ مسابقت بھی شامل ہے۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں یہ لوگ اپنی آخرت کی فکر سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ نہ کسی کو اللّٰہ کا ڈر ہے اور نہ ہی قانون کا خوف ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو خدا سے زیادہ قانون اور پولیس کا ڈر ہوتا ہے۔ سخت سزا کا خوف جرم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ مردہ گوشت کی فروخت قابلِ ضمانت جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب فرد کی فوراً ہی ضمانت ہو جاتی ہے۔ اگر ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی جائے تو وہ ضمانت، پکی ضمانت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کیس چلتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا چھ ماہ قید ہے۔ اگر ایک مرتبہ کا سزایافتہ شخص دوبارہ اسی جرم کا ارتکاب کرے اور جرم ثابت ہو جائے تو اسے دو سال قید کی سزا ہو گی۔ یہ لوگ جب پکڑے جاتے ہیں تو عدالت سے ضمانت پر رہا ہو کر واپس آ جاتے ہیں۔ اور اپنا مکروہ دھندہ دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو سزا ہوتے اور جیل جاتے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف سرکار کی طرف سے پرچہ درج ہوتا ہے۔ کبھی مدعی پولیس ہوتی ہے تو کبھی ویٹرنری ڈاکٹر مدعی ہوتا ہے۔ ایسے مقدمات میں پولیس اپنی مرضی کے گواہ رکھتی ہے جو کبھی عدالت میں گواہی کے لیے پیش نہیں ہوتے۔ نتیجے کے طور پر ملزم بے گناہ ثابت ہو کر بری ہو جاتے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ملک میں مردہ اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے۔ اس مکروہ دھندے کے خلاف سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ ملزمان کے خلاف بھرتی کے گواہ نہیں ہونے چاہییں بلکہ ایسے مضبوط گواہ ہوں جنہیں اپروچ نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عدالت میں پیش ہوں۔ جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا دس سال قید اور دس لاکھ جرمانہ مقرر کی جائے۔ مردہ گوشت خریدنے والے ریسٹورنٹس، بیکری مالکان اور فاسٹ فوڈ شاپس کے مالکان کو بھی یہی سزا دیتے ہوئے ان کا کاروباری لائسنس منسوخ کیا جائے۔ تاکہ یہ لوگ عوام کو حرام گوشت اور اس سے بنی ہوئی پراڈکٹس فروخت کرنے سے پہلے اس کے انجام کا سوچ کر باز رہیں۔