گزشتہ دنوں ہم نے اپنے کالم میں اپنی کتاب ”کامیابی” سے وژن کے موضوع پر لکھے گئے چیپٹر سے ایک اقتباس دیا تھا تاکہ ہماری نئی نسل کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اپنے مستقبل کا تعین کرلے۔ ان کے سامنے ان کی منزل کے خدوخال واضح ہوں۔ یہ اقتباس شائع ہونے کے بعد پنڈی کینٹ سے محمد عارف صاحب نے اس موضوع کی مزید وضاحت کی ہے۔ اس وضاحت سے یہ موضوع مزید نکھر کر سامنے آجاتا ہے، چنانچہ ان کی یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”محترم جناب انور غازی صاحب! آپ کا مضمون ”وژن” میرے سامنے ہے۔ اللہ نے آپ کو جو فنِ تحریر عطا فرمایا ہے اُس کی داد نہ دینا کنجوسی ہوگی۔ آپ کے بیان کردہ خیالات سے بھلا کون اختلاف کرے گا۔ میرا یہ خط آپ کے خیالات کا تتمہ ہے۔ عرض ہے کہ آپ کے ”کامیابی” کے موضوع پر تحریر کردہ ”نسخہ جات” کیا موجودہ پاکستانی معاشرتی اور معاشی صورتِ حال میں بھی قابلِ عمل ہیں؟ میرے خیال میں آپ نے شاید اس پہلو پر سیر حاصل توجہ نہیں دی ہے۔
وژن دراصل اُس وقت اپنا ظہور کرتا ہے جب طبائع اور اذہان اپنی نارمل صورت میں ایک صحت مند جسم کے اندر موجود ہوں۔ ایک شخص جو ایسے خاندان میں موجود ہے جہاں اُس کے سر پر بیمار ماں باپ، جوان بہنوں اور کئی چھوٹے بھائیوں کی ضروریات لٹک رہی ہوں، ماحول میں صحت اور صفائی کے بے شمار مسائل موجود ہوں، گھر بھی کرائے پر ہو جسے ہر سال دو سال بعد بدلنا بھی ہو، مالکِ مکان کا ”شفقت بھرا” چہرہ بھی دن میں ایک دو مرتبہ دیکھنا ہو۔
آمدن بھی محدود ہو اور صحت بھی صحیح نہ ہو، بھلا ایسے شخص کو کوئی مقصدِ زندگی، منصوبہ سازی، کامیابی اور وژن کے متعلق کیا سمجھاسکتا ہے۔ یہ تو صرف ایک تنگ حال شخص کی مثال ہے۔ کیا یہ بھی کوئی بتانے کی بات ہے کہ ہمارے افلاس زدہ معاشرے میں ان گنت ایسی مثالیں موجود ہیں۔ بے علمی، کم علمی اور جہالت ہمارے معاشرے کا 80 فیصد سے زائد عنصر ہے۔ کسی اَن پڑھ شخص کو جسے صرف زندگی برقرار رکھنے کی فکر مارے دے رہی ہو ”مستقبل بینی” اور ”کامیابی” کے تصورات کیسے سمجھائے جاسکتے ہیں؟ ”وژن” اور اس کے مطابق منصوبہ بند زندگی کا تصور میرے خیال میں ہمارے معاشرے کے ایک فی صد افراد بھی شاید عملی طور پر نہ سمجھ سکتے ہوں۔
کامیابی اور وژن کے موضوع پر لکھی گئی ڈیل کارنیگی اور نارمن پیل جیسے لوگوں کی کتب بھی معاشرے کے حقیقی Background کو نظرانداز کرکے لکھی گئیں۔ آج بھی ان موضوعات پر جو تحریریں سامنے آرہی ہیں انہی خطوط پر قلمبند کی جارہی ہیں۔ بے شک ہر معاشرے میں Visionary اشخاص ڈھونڈے جاسکتے ہیں، لیکن گزشتہ چند سو سال کی معلوم تاریخ میں ایسے لوگ ”لاکھوں میں ایک” نہیں ”کروڑوں میں ایک” کی مثل ہیں۔ دیکھا جائے تو تمام معاشرے اپنے اندر 99 فیصد سے کہیں زائد بے مقصد اور غیرمنصوبہ بند زندگی گزارنے والے لوگ رکھتے ہیں۔
اس کی وجہ تمام معاشروں میں طاقت ور استحصالی عناصر ہیں۔ جنہوں نے عوام الناس کی بڑی اکثریت کو ان کے جائز معاشی حقوق اور نارمل شہری سہولتوں سے محروم کر رکھا ہوتا ہے اور وہ لوگ صرف زندگی برقرار رکھنے والے اقدامات پر گزر بسر کررہے ہوتے ہیں۔ مفلس اور محکوم لوگ جینے کے لیے طاقت ور استحصالی عناصر کے زیردست زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ زیادہ گہرا کیا جائیں، اندرون سندھ، اندرون KPK، اندرون پنجاب اور اندرونِ بلوچستان کے باسیوں کو ہی دیکھ لیں۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے کا 80 فیصد سے زائد حصہ ہیں۔ کیا ایسے مظلوم انسانو ںکو ”کامیاب زندگی” اور ”وژن” کا مطلب سمجھانا بچوں کا کھیل ہے؟ جدید مغربی مصنف اسٹیفن کوّے کی تحریریں، جنہیں بہت مؤثر سمجھا جاتا ہے، بھی معاشرے کے ایک انتہائی چھوٹے طبقے کو خطاب کرتی ہیں۔
اسی طرح جدید پاکستانی مقرر قاسم علی شاہ کا خطاب بھی صرف تعلیم یافتہ اور شہری طبقات سے ہے، جبکہ ضرورت ہے کہ محروم طبقات میں شعور کی بیداری کا کام کیا جائے اور جنہیں صرف ”جینے” کا شعور ہے انہیں ”مقصدِ زندگی” اور ”وژن” کا مطلب سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ یہ معاشرے کا 80 فیصد سے زائد طبقہ ہے، بلکہ کئی جگہ پر شاید اس سے بھی زائد ہو، لہٰذا ”کامیابی” کے موضوع پر بولنے اور لکھنے والے عام قابلِ قدر مصنفین اور مقرر حضرات سے گزارش ہے کہ ان گزارشات پر توجہ فرمائیں۔ اپنا پیغام وہاں پہنچانے کی بھی کوشش فرمائیں جہاں کوئی بھی پہنچانے کی طرف راغب نہیں ہے۔”
جناب محمد عارف کی بات بھی درست ہے کہ جہاں ہزاروں قسم کے مسائل اور بیسیوں قسم کی مشکلات ہوں بھلا وہاں ایسی باتوں کی طرف کون دھیان دیتا ہے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ وژن، اہداف اور منزل کے متعین ہوجانے سے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے۔ چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے ہی قومیں بنتی ہیں۔