مدرسہ کی تالا بندی!

خوازہ خیلہ سوات کے مدرسے میں اساتذہ نے طالبعلم کو وحشیانہ طریقے سے سزا دے کر موت سے دوچار کر دیا، ہم اس فعل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دین کا لبادہ اوڑھ کر جو لوگ اس طرح کے کام کریں، انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عبرت ناک سزا دی جائے۔ تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان(اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے بھی) نے اپنے نیٹ ورک سے ملحق مدارس کو صریح ہدایت کر رکھی ہے کہ کسی بھی طالبعلم کو مطلقاً جسمانی سزا دینے کی اجازت نہیں ہے، خواہ ہاتھ سے ہو یا لاٹھی سے یا کسی اور طریقے سے۔ ایسے اساتذہ کو ہم فوراً برطرف کرتے ہیں اور اگر سزا قابلِ تعزیر حد تک ہے تو ذمہ دار شخص کو قانون کے حوالے کرتے ہیں۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ اس ادارے کا ہماری تنظیم کے نیٹ ورک سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم جب وڈیو وائرل ہوئی تو قانون حرکت میں آیا اور آخری خبریں آنے تک ذمہ دار قانون کی گرفت میں آ چکے ہیں، اب لازم ہے کہ انہیں عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ دوبارہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے: لبرل، الٹرا لبرل، سیمی لبرل اور دین بیزار طبقات نے اس سانحے کی آڑ لے کر مدارس کو ہدف بنانا شروع کیا، متعلقہ ڈی سی او نے بھی اس مدرسے کو سیل کر دیا ہے، اب ہمارا سوال یہ ہے خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات مالاکنڈ یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور دیگر یونیورسٹیوں میں ہو چکے ہیں، ہوتے رہتے ہیں، اسکولوں کے اساتذہ کی بھی وحشیانہ مار پیٹ کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، اس کے شواہد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔قانون کا تقاضا یہی ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے، لیکن اس کی آڑ میں دینی مدارس کو ہدف بنانے کا جواز کیا ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا فوراً حرکت میں آیا، ہمارا سوال یہ ہے کیا ان یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو سیل کر دیا گیا، کیا ایک فرد کی سزا پورے ادارے کو دیدی گئی؟ گزشتہ عشرے میں امریکا میں ایسے متعدد واقعات ہوئے کہ دہشت گردوں نے امریکا کے بعض اسکولوں میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، دسیوں مارے گئے، دسیوں زخمی ہوئے، بعض مجرم موقع پر مارے گئے، بعض کو قانون کی گرفت میں لیا گیا، لیکن کسی تعلیمی ادارے کو سیل نہیں کیا گیا، بلکہ ایسے تمام اداروں میں تعلیم کا سلسلہ حسبِ معمول جاری رہا اور جاری ہے۔ ایک لبرل اسلامک اسکالر، جو دینی مدارس وجامعات اور اہلِ دین کو اکثر اپنی توجہات ونوازشات کا ہدف بناتے رہتے ہیں، ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ اس طرح کے نفرت آمیز کالموں کا جواب دیا جائے لیکن بعض اوقات بامرِ مجبوری ایسا کرنا پڑتا ہے۔ امریکا اور مغرب کے تعلیمی اداروں میں بھی خال خال زنا بالجبر کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتی ہے، مگر تعلیمی اداروں کو سیل نہیں کیا جاتا، زنا بالرضا تو ان کے ہاں ویسے بھی جرم نہیں ہے، البتہ کم عمر کے ساتھ یہ جرم ہے۔ مذکورہ کالم نگار یہ بھی تکرار کے ساتھ لکھتے ہیں کہ حیرت ہے: ”دینی مدارس کے ذمہ داروں نے اس کی مذمت نہیں کی۔” یہ بھی حقائق سے دانستہ چشم پوشی ہے، غلط بیانی ہے، دینی مدارس کی تنظیمات ہمیشہ شدید ترین الفاظ میں ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ مثالیت پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پورے ملک میں، خواہ دینی تعلیمی ادارے ہوں یا عصری تعلیمی ادارے، اس طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہونا ہی نہیں چاہیے، یہ ہمارے چہرے پر بدنما دھبّا ہے لیکن انسانی معاشرہ ہے، تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ انسانی معاشرے میں کوئی اخلاقی جرم سرزد ہی نہ ہوا ہو، البتہ صالح معاشروں میں اس کا تناسب انتہائی معمولی بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور آوارہ معاشروں میں اس کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے، بلکہ قومِ لوط کی طرح ان کے ہاں اسے جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جنسی عریانی اور آلودگی کے مظاہر بالخصوص نوعمر بچوں کو نشانہ بنانے کے لیے باقاعدہ فلمیں بنائی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر اَپلوڈ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکا میں ایلون مسک نے امریکی صدر ٹرمپ پر الزام لگاتے ہوئے ایک شخص جیفری ایبسٹین کا حوالہ دیا کہ وہ اس مذموم اور قابلِ نفرت کاموں میں ملوث تھا، لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے خال خال واقعات رونما ہونے پر کسی طبقے یا شعبے کو بحیثیتِ مجموعی ہدف بنانے اور دل کی بھڑاس نکالنے کے بجائے مصلحانہ انداز اختیار کیا جائے، حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ بلاامتیاز قانونی کارروائی کرے اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دے تاکہ معاشرے میں اس طرح کے گھنائونے جرائم کا سدِباب ہو سکے اور نظامِ عدل شفّاف اور بے لاگ ہو۔

ہمارے زمانے میں جو معلّمین بچوں کو سبق یاد نہ ہونے پر بے دردی سے ڈنڈوں سے مارتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے تک کان پکڑوا کر ان کو مرغا بنا دیتے ہیں، یہ ظلم ہے، ناجائز ہے اور گناہِ کبیرہ ہے اور قیامت کے دن ان لوگوں سے قصاص لیا جائے گا۔ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان احادیث پر غور کرنا چاہیے۔ حدیثِ قدسی میں ہے: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام کر دیا ہے اور تمہارے اوپر بھی حرام کر دیا ہے، پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔” (مسلم: 2577) امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں: انسانوں میں سے کسی کو بھی ناحق مارنا اور اسے اذیت وتکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت پہنچاتے ہیں، انہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔ (الاحزاب: 58) جس کو مارا جائے وہ عورت ہو اور مارنے والا اس کا شوہر ہو یا وہ غلام یا کنیز ہو اور مارنے والا اس کا آقا ہو یا چھوٹا بچہ ہو اور مارنے والا اس کا والد ہو یا اس کا سرپرست ہو، الغرض کسی کو بھی حقِ شرعی کے بغیر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ (تہذیب الآثار، ج: 1، ص: 417) نیز نہ تو چہرے پر مارنے کی اجازت ہے اور نہ جسم کے کسی اور حساس مقام پر مارنے کی اجازت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: (اصلاح وتادیب کی غرض سے) مارنے کی نوبت آ جائے تو چہرے پر نہ مارو، نہ گالی دو۔ (مسند احمد: 20011) بلکہ انسان تو اپنی جگہ رہے، کسی حیوان کو بھی ان مقامات پر مارنا جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے ایک ایسے گدھے کو لے جایا گیا جس کے چہرے کو داغا گیا تھا، پس آپ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے چہرے کو داغتا ہے یا ان کے چہرے پر مارتا ہے، پس آپ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابودائود: 2564)

اگر معاشرہ بحیثیتِ مجموعی صالح ہو اور اِکّا دکا افراد سے بشری کمزوری کے تحت جرم سرزد ہو گیا ہو تو اسلام پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے، اشاعتِ فاحشہ کو اسلام پسند نہیں فرماتا، البتہ آج جیسے معاشروں میں جہاں شر کا غلبہ ہو جائے تو پھر مجرموں کو عبرت ناک سزا دینا ہی حکمتِ دین اور معاشرے کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے حدودِ الٰہی کے بارے میں جب مقدمہ عدالت میں آ جائے اور اعترافِ جرم یا شرعی شہادتوں سے جرم ثابت ہو جائے تو پھر حد نافذ کرنا لازمی ہے تاکہ معاشرے کیلئے عبرت کا باعث ہو۔ الغرض اسلام کی روح یہ ہے کہ جرم سے نفرت کی جائے اور مجرم سے ہمدردی کی جائے، لیکن جب لوگوں کا ضمیر جرم میں انتہائی حد تک آلودہ ہو جائے تو پھر رعایت کی گنجائش نہیں رہتی۔ آج ہم ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں۔ ہماری گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہبی شعبے سے وابستہ لوگ جرم کریں تو انہیں ضرور عبرتناک سزا دی جائے، لیکن اس کی آڑ میں دین اور دینی تعلیمی اداروں کو ہدف بنانا قرینِ انصاف نہیں ہے اور دینی مدارس میں مقابلتاً خیر کا پہلو زیادہ ہے۔ بعض دینی مدارس جہاں عصری تعلیم دی جا رہی ہے، ان کے طلبہ نے سرکاری تعلیمی بورڈوں کے امتحانات میں اوّل دوم پوزیشنیں حاصل کی ہیں، لیکن ان کی تشہیر نہیں کی جاتی، یہی امتیازی رویہ ہے۔