شادی شدہ جوڑوں کے لیے کامیابی کا راز

کراچی کے علاقے دو دریا میں ایک اسکول ٹیچر کی اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ سمندر میں کود کر خودکشی کرنے کے واقعے نے ہمارے سماج میں پنپتی ہوئی ایک بڑی خرابی کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔اس واقعے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مذکورہ اسکول ٹیچر کی شادی ناکام ہوگئی تھی، بیوی نے علحیدگی کے بعد بچوں کی کسٹڈی کا کیس کر دیا، عدالت نے بیوی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اس نے یہ انتہائی اقدام کرتے ہوئے اپنی بھی جان ضائع کر دی اور دو معصوم بچوں کا بھی خون کر دیا۔ اگر آپ کسی سول کورٹ میں جائیں تو وہاں روزانہ اس قسم کے درجنوں کیس آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق دینے اور خلع لینے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے اور اس لعنت کا سب سے زیادہ وبال چھوٹے بچوں پر آجاتا ہے جو ماں باپ کی لڑائیوں کے درمیان پس کر رہ جاتے ہیں۔

یہ 2014ء کی بات ہے۔ میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکیے نے خطوط لاکر دیے۔ ایک خط میں لکھا تھا: ”محترم انور غازی بھائی! ہم صبح شام آپ کیلئے دعا کرتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہماری شادی بچ گئی۔ انور بھائی! ہماری پسند کے مطابق ہی ہمارے والدین نے ہماری شادی کی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی پڑھے لکھے لکھنوی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم دونوں ہی صفائی پسند، اصول پسند اور آرگنائزڈ تھے۔ یہی اعلیٰ تعلیم اور اصول پسندی نے ہماری ازدواجی زندگی کو دوزخ بناکر رکھ دیا تھا۔ ایک چھوٹی سی بات پر شادی کے دوسرے دن ہی جھگڑا ہوگیا تھا۔ ہم دونوں میاں بیوی اپنی اپنی اَنا کے خول سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ میں اپنی بیوی کے عیب اور خامیوں کی ٹوہ میں رہتا تو میری بیوی میری کوئی خامی جانے نہ دیتی تھی۔ شادی کے تیسرے ہفتے تک ہم ایک دوسرے سے نفرت سی کرنے لگے تھے۔ حالات بگڑتے ہی جا رہے تھے۔ ہمارے والدین بھی ہماری وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ وہ ہم دونوں کو سمجھانے لگے کہ تم نے اپنی پسند کے مطابق شادی کی ہے۔ اب اتنی جلدی کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ خدارا! جگ ہنسائی کا سبب نہ بنو۔ ہم وقتی طو رپر صحیح ہوجاتے، لیکن اگلے ہی دن پھر لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا۔ اکثر و بیشتر ہماری ان بن کسی چھوٹی سی بات پر ہوتی اور پھر شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی۔ اچانک مجھے سفر پر جانا پڑا۔ میں ایک ہفتے گھر سے باہر رہا۔ اس دوران میری بیوی اپنی کسی سہیلی کے پاس گئی۔ اس نے اپنی سہیلی کے ساتھ گھریلو حالات ڈسکس کیے۔ اس کی سہیلی نے میری بیوی کو سمجھایا کہ گھر چلانے کی ساری ذمہ داری اور شادی نبھانے کی کنجی عورت کے پاس ہوتی ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں عورت کو ہی جھکنا پڑتا ہے۔ انہوں نے میری بیوی کو مثالی میاں بیوی کے واقعات سنائے۔ خوشگوار ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک تفصیلی لیکچر دیا، اور پھر آخر میں انہوں نے آپ کی کتاب ”خاندانی نظام ایسے بچائیں” دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضرور پڑھیں۔ میری بیوی نے گھر آکر یہ کتاب بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ سونے کے لیے جب لیٹی تو نیند نہیں آرہی تھی۔ بس وقت گزاری کے لیے یونہی کتاب اٹھاکر ورق گردانی شروع کر دی۔ ایک عنوان تھا ”ازدواجی زندگی کیسے گزاریں” اس عنوان نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ بس پھر کیا تھا؟ میری بیوی نے اسی ہفتے پوری کتاب پڑھ ڈالی، اور پھر کاغذ قلم لے کر خوشگوار ازدواجی زندگی کے اصول نوٹ کرنے لگی۔ ایک جگہ لکھا تھا: ”اپنے شوہر کو خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کریں۔ شوہر کی خدمت کریں۔ مشترکہ دلچسپیاں تلاش کریں۔ خود غرضی سے بچیں۔ جیون ساتھی سے بددیانتی نہ کریں۔ محبت جتائیں۔ اپنے شوہر کی تعریف کریں۔ ان کا ہر حکم مانیں۔ بن سنور کر رہیں۔ حالات سے کمپرومائز کریں۔ اپنے شوہر کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی خیال رکھیں۔ ان کے لیے کھانا خود اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ غصے پر صبر کریں۔ اپنے شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیں۔ ان کے سامنے سرنڈر کر دیں اور محبت سے اپنے شوہر کا دل جیتیں۔”

میری بیوی جیسے جیسے کتاب پڑھتی گئی ویسے ویسے وہ اندر سے بدلتی گئی۔ تقریباً 21ایسی باتیں نوٹ کیں جن پر ہمارا جھگڑا ہوتا تھا اور پھر اس کا حل اس کتاب میں تلاش کیا تو 17باتوں کا جواب مل گیا۔ اس کا خلاصہ انہوں نے ایک صفحے پر لکھ لیا۔ میں ایک ہفتے کے بعد گھر لوٹا تو میں نے اپنی بیوی کو بدلا ہوا پایا۔ پہلے پہل تو میں یہ سمجھا کہ شاید میں ایک ہفتے بعد گھر لوٹا ہوں، اس لیے ایسا بہتر محسوس کر رہا ہوں، لیکن وہ واقعتا بدلنے کا تہیہ کر چکی تھی۔ دوسری رات سوتے وقت میری بیوی نے ایک کاغذ پر لکھے ہوئے خوشگوار ازدواجی زندگی کے کچھ اصول دیے کہ اسے پڑھیں۔ میں نے پڑھے تو مجھے اچھے لگے، اور پھر کہنے لگی: ”مجھے ان اصولوں نے بدلا ہے۔” میں نے پوچھا: ”یہ کہاں سے لیے ہیں؟ کس نے بتائے ہیں” تو انہوں نے ساری تفصیل بتائی اور پھر یہ کتاب بھی اپنے پرس سے نکال کر دی کہ آپ بھی پڑھیں۔

جب میں نے دیکھا کہ میری بیوی خدمت کر رہی ہے۔ ہر بات مان رہی ہے۔ میری غلطی کو بھی اپنی غلطی تسلیم کر رہی ہے۔ میرے غصے پر صبر کر رہی ہے۔ میری دلچسپی کے کام کر رہی ہے۔ اپنی اَنا کو خاک میں ملادیا ہے۔ اُس کی اِس قربانی پر میں نے بھی اپنے آپ کو بدلنے کا ارادہ کر لیا۔ حاصل یہ کہ ہمارے لیے یہ کتاب ”مسیحا” ثابت ہوئی ہے۔ دوزخ بنتی ہوئی ہماری زندگی اس کتاب کی وجہ سے جنت بن گئی ہے۔ اس کتاب میں دیے گئے ”کیس اسٹڈیز” سے ہمیں بہت فائدہ ہوا ہے۔ ہمیں جب معلوم ہوتا ہے کہ فلاں میاں بیوی اور فلاں خاندان میں لڑائی جھگڑا بڑھ رہا ہے تو ہم غیرمحسوس طریقے سے ان کے گھر یہ کتاب بھجوا دیتے ہیں۔ ہمارے ہی خاندان کے ایک جوڑے کی شادی کو 8سال ہو چکے تھے۔ ان کے تین بچے بھی تھے۔ کسی مسئلے پر ایک دن ان کی آپس میں ناچاقی ہوئی اور پھر لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن گیا۔ یہاں تک عورت خلعہ کے لیے عدالت جا پہنچی۔ کتنا افسوس ناک وہ منظر تھا جب بیوی اپنے وکیل کے ساتھ جج کے ایک طرف کھڑی تھی تو شوہر جج کے دوسری طرف اپنے وکیل کے ساتھ کھڑا تھا۔ اگلے دن میں اپنی بیوی کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ ہم نے ان سے جدا جدا ملاقاتیں کیں، بالآخر ہماری کوششیں رنگ لائیں اور ان کی جدائی نہ ہوتی، بلکہ اب تو ان میں مثالی محبت ہے۔ انور بھائی کاش! یہ کتاب ہر گھر تک پہنچ جائے۔”

یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے مجھ جیسے کم علم شخص کو یہ کتاب لکھنے کی توفیق دی۔ مجھ میں کوئی کمال نہیں۔ ہم نے اپنی ہمت کے مطابق محنت سے لکھا اور مسلسل دعا بھی کرتے رہے کہ اس سے خیر ہی پھوٹے۔ جب میں ایسی داستانیں پڑھتا ہوں تو مارے خوشی کے آنسو بہہ پڑتے ہیں کہ میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ایک ٹوٹتے ہوئے خاندان کو بچا لیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ”زندگی ایسے گزاریں” سیریز کی ہماری دیگر چار کتابیں بھی اسی طرح زندگی پلٹ ثابت ہوں گی۔ ان سے بھی خلق خدا کو فائدہ ہی ہوگا۔ راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو روشنی ہی ملے گی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے اصولوں سے آگاہی ہوگی۔