پائیدار امن کی جانب پیش قدمی اورریاست کی حکمتِ عملی

ریاست پاکستان اس وقت دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے ایک مربوط اور منظم حکمت عملی پر گامزن ہے۔ خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں، بالخصوص باجوڑ، بنوںوغیرہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہیں۔ ان کارروائیوں میں افواج پاکستان کے جوان ملک کے دفاع، عوام کے تحفظ اور ریاست کی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں، جہاں بلوچستان کے ویران صحراؤں اور پہاڑوں میں چھپے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں تک رسائی کے لیے جدید ترین ہیلی کاپٹر اور دیگر وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت انسداد دہشت گردی و ریاستی رٹ کے قیام سے متعلق اسٹیرنگ کمیٹی کے جائزہ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین ہم آہنگی کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔

دنیا بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کی معترف ہے، جیسا کہ آپریشن ردالفساد اور ضربِ عضب میں بہادر افواج کی شاندار کامیابیاں اور حالیہ ”معرکہ حق” میں پاکستان کی فتح اس کا واضح ثبوت ہے۔ ملک کو درپیش متنوع چیلنجز اور مسائل کے پیش نظر، حکومت اور فوج کی جانب سے عوام سے تعاون کی درخواست کی جا رہی ہے تاکہ احتجاج اور جلوسوں کی آڑ میں فساد پھیلانے کی کوششوں، بالخصوص لسانی عصبیت اور صوبائی تعصبات کو روکا جا سکے، جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے پاک اور پرامن ریاست کا قیام عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کر سکے گا۔

وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ فتنہ ہندوستان، فتنہ الخوارج، اور دیگر سماج دشمن عناصر کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت ایک جامع، مؤثر اور قابل عمل حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حکمتِ عملی کے خط و خال یہ ہیں کہ اس میں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بیک وقت کارروائی شامل ہے۔ داخلی سطح پر، دہشت گردوں کی ہلاکت اور گرفتاریوں کا عمل جاری ہے جس کے لیے مربوط انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جارہے ہیں۔ دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے مؤثر ابلاغی مہم جاری ہے۔ عوام کو خبرد ار کیا جارہاہے کہ وہ بھارتی پراکسی کی جانب سے کیے گئے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور خود کو جذبات و اشتعال کا شکا ر ہونے سے بچائیں۔ مثال کے طور پرخیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں شہریوں کی ہلاکت کا الزام سیکورٹی فورسز کے سر ڈالا جارہا تھا لیکن اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ افواج پاکستان کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تا کہ عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کی جاسکے اور دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کرسکیں۔ خوارج کی عوام دشمنی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے کہ یہ دہشت گرد خود ڈرون حملے کررہے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی انھیں بھارت اور اسرائیل کی مدد سے حاصل ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کے بیان کے مطابق اس وقت جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے وہ نہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے پر مرکوز ہے بلکہ ان کی فکری اور مالی مدد کے ذرائع کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا ہر محب وطن پاکستانی کو ادراک ہے۔

دوسری جانب خارجی سطح پر، بھارت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مسلسل اقدامات کا جواب دیا جارہاہے۔ بھارت کی جانب سے جدید دفاعی نظاموں کا حصول اور جنگی جنون کا مظاہرہ، پاکستان کے لیے ایک مستقل چیلنج ہیں لیکن الحمد للہ ملک کا دفاع مضبوط ہے۔ پاکستان اپنی جدید الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں بشمول کاؤنٹر جیمنگ اور مضبوط کمانڈ سسٹم کے ذریعے کسی بھی جارحانہ مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔ بھارت کی مودی سرکار ہر موقع کو پاکستان کی خلاف استعمال کررہی ہے جیسا کہ فیٹف میں بھارت کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے بیان کو پاکستان کے خلاف بطور ثبوت استعمال کرنے کی کوششوں سے اس اندھی دشمنی کا اندازہ لگا یا جاسکتاہے۔ تاہم دوسری جانب ان واقعات یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی دفاع کے حساس معاملات میں بعض سیاسی عناصر کس قدرغیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انھوں نے سیاسی مخالفت کو ملک دشمنی میں تبدیل کردیاہے۔
بہرحال حالات و اقعات سے یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان بیک وقت داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے اور امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ معاشی محاذ پر بھی اقدامات ضروری ہیں، جیسا کہ اسمگلنگ کی روک تھام سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام کی کوششیں بھی بعض عناصر کو ناگوار گزررہی ہیں اور وہ سیاسی، لسانی اور علاقائی معاملات کو اچھا ل کر عوام کومشتعل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ مرکز گریز سیاسی مہم جوئی سے اجتناب کیا جائے اور ملک کو اکھاڑے میںتبدیل نہ کیاجائے۔ بعض سیاسی جماعتوں کی عاقبت نااندیشی اور صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تعصب سے بھرپور اندازِ سیاست نے ملک کے لیے گوناں گوں مسائل پیدا کردیے ہیں اور عوام کے ایک طبقے کو جذباتیت کی اندھی راہوں پر دھکیل کر خود انہی کے لیے مشکلات کوبڑھا دیاہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے لیڈروں کا بھی احتساب کیا جائے جو محض اپنی سیاست اور لیڈری چمکانے کے لیے عوام کو گمراہ کررہے ہیں اور ملک کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

من حیث القوم ہمیں اپنے آزاد وطن کی قدر کرنی چاہیے جسے قدرت نے جملہ وسائل مہیا کیے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میںنو ارب بیرل تیل اورتین کھرب مکعب میٹر قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہونے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں وسیع قدرتی معدنیات موجود ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر ملک کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ اگر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر کے ترقیاتی منصوبوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ عوام کو عدل و انصاف مہیا کیا جائے اور ملک میں عادلانہ نظام تشکیل دیا جائے تو پاکستان عالم اسلام کا مضبوط اور مستحکم ملک بن سکتاہے۔ ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے، پاکستان کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے ایک ہمہ جہت اور جامع حکمت عملی پر کاربند رہنا ہو گا تاکہ ایک مضبوط، پرامن، اور خوشحال ریاست قائم کی جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر ملک کا داخلی امن ہے جس کے لیے پوری قوم کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔