پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان نے یونیورسٹی آف سوات میں خصوصی خطاب کے دوران بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت تعلیم، مہارتوں کی ترقی، روزگار اور نوجوانوں کی شمولیت کے شعبوں میں بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم، اسکالرشپس، سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور کھیلوں کے شعبے میں مختلف مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکنیکل ایجوکیشن پروگرام شروع کر رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو ملکی اور بین الاقوامی روزگار کے مواقع کے مطابق مہارتیں فراہم کی جا سکیں۔
ہمارے ہاں بہت بڑا مسئلہ تعلیم کی سمت کا تعین نہ ہونا رہا ہے۔ میٹرک تک طلبہ کی اکثریت کو یہی پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد آگے کیا پڑھنا ہے یا کون سے شعبے میں جانا ہے۔ دیہات میں رہنے والے میٹرک پاس طلبہ کی اکثریت آگے پڑھنے کی بجائے نوکری کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ ایسے ”تعلیم یافتہ“ نوجوان کھیتوں میں اپنے والدین کا ہاتھ نہیں بٹاتے، جانوروں کو چارہ نہیں ڈالتے کہ یہ کام ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔دیگر پیشوں سے وابستہ افراد مثلاً نائی، موچی، کمہار، مستری وغیرہ کے بیٹے اپنا آبائی پیشہ اختیار کرنے سے کتراتے ہیں کہ اگر یہی کرنا ہے تو تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ؟ وہ تصور میں اپنے آپ کو سرکاری ملازم اور رولنگ چیئر پر بیٹھا محسوس کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تازہ کھیپ کو دیکھ کر بالآخر انہیں صبر آ جاتا ہے۔ پھر وہ کسی فیکٹری میں مزدوری کرنے لگتے ہیں، بعض اپنا آبائی پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ فروٹ و سبزی وغیرہ کی ریڑھی لگا لیتے ہیں اور باقی ماندہ کوئی اور محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ان نوجوانوں کے دس بارہ سال ضائع ہو گئے جوانہوں نے تعلیم حاصل کرنے میں صرف کر دیے۔
ہر تعلیم یافتہ نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سرکاری ملازمت مل جائے۔ اکثر والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کے حصول کے لیے تعلیم دلاتے ہیں مگر حکومت کے لیے اتنی زیادہ مقدار میں نوکریاں پیدا کرنا ممکن نہیں۔ آئی ٹی اور اے آئی کے موجودہ دور میں دس بندوں کا کام ایک بندہ کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں سرکاری نوکریوں کا حجم مزید سکڑ گیا ہے۔ ہم پون صدی سے آرٹس یا ہیومینٹی کے نام پر فضول نصاب طلبہ کو پڑھائے چلے جا رہے ہیں جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں۔ غلط تعلیمی پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے ملک میں ہر سال پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بیروزگاری ان نوجوانوں کو فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار کر دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے راہروی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ وہ جرائم کی دلدل میں اتر کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
اس روز افزوں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا ایک ہی حل ہے کہ تعلیمی نظام ازسرِ نو تشکیل دیا جائے۔ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پرائمری کلاسز سے ہی بچے کے ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کے مستقبل کی سمت کا تعین کر لیا جائے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اسے مستقبل کے ٹارگٹ کے حصول کے لیے تیار کرنے پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اُردو، انگریزی، روزمرہ ریاضی اور اسلامیات کے علاوہ باقی مضامین مہارتوں پر مبنی آپشنل شامل کیے جائیں جن میں سے طالب علم کسی ایک مضمون کا انتخاب کرے۔ ان آپشنل مضامین میں وُڈ ورکس، آئی ٹی، اے آئی، زراعت، کمپیوٹر، بجلی کا کام، مکینکس، فرنیچر سازی اور دوسرے سکلڈ بیس (عملی مہارتوں پر مشتمل) مضامین شامل کیے جائیں۔ ان مضامین کو اسکولوں میں پڑھایا جائے اور ان کے عملی تجربات کروائے جائیں۔ ہر طالب علم کے لیے دو گھنٹے ورکشاپ میں گزارنا لازمی ہو جہاں وہ عملی مہارتیں سیکھے۔ سائنس صرف ان طلبہ کو پڑھائی جائے جن کا ذہنی رجحان اس طرف ہو۔ اگر کوئی طالب علم کسی شعبے میں بہتر کارکردگی نہ دکھا پا رہا ہو تو ابتدائی دو ماہ میں ہی اس کا شعبہ تبدیل کر کے مناسب شعبے میں بھیج دیا جائے۔ اس طرح سے جب کوئی طالب علم میٹرک پاس کرلے گا تو وہ عملی زندگی کے لیے تیار ہو کر معاشرے کا مفید شہری بن چکا ہوگا۔
میٹرک کے بعد سائنس کے طلبہ ایف ایس سی میں چلے جائیں جبکہ دوسرے طلبہ اگر اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ایف اے میں داخلہ لے لیں۔ بصورتِ دیگر اپنا ذاتی کام شروع کر دیں یا بطور کاریگر اپنی خدمات کسی ادارے کے سپرد کر دیں۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مقصد کے حصول کے لیے تمام ایلیمنٹری اور ہائی و ہائیر سیکنڈری اسکولز کو ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل اسکولوں میں تبدیل کر دیا جائے جہاں پر ہر شعبے کے ماہر اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہوں گے بلکہ معاشرے کا بوجھ اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوں گے۔ معاشی آسودگی کے سبب جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور نوجوانوں کے پاس منفی سرگرمیوں کے لیے وقت ہی نہیں ہو گا نہ ہی ان کا اس طرف رجحان ہوگا۔ سب سے اچھی بات یہ ہو گی کہ گروتھ ریٹ میں اضافہ ہو گا اورملک جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔
