شام سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ساحلی شہر لطاکیہ میں شامی امن دستوں اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ شام کے جلاد بشارالاسد کے حامی گروہوں نے لطاکیہ پر تسلط حاصل کرنے کے لیے مسلح بغاوت چھیڑی تاہم شامی امن فورسز نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور اب مختلف مقامات پر یہ باغی دستے اپنی جان بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
لطاکیہ شام بحیرۂ روم کے قریب ایک تجارتی وعسکری اہمیت کا حامل شہر ہے جس کے قریب طرطوس نامی بحری اڈہ بھی موجود ہے۔ لطاکیہ پر تسلط کا مطلب یہ ہوتا کہ باغیوں کو بحری راستے سے کمک آسانی سے میسر آ جاتی لیکن شام کی وزارتِ دفاع کے مطابق محافظ دستوں نے زبردست جوابی کارروائی کی ہے جس کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوگئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں حالیہ بغاوت کے پسِ پردہ ایران اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ روس اور امریکا کے مشترکہ مفادات کارفرما ہیں۔ ایران نواز تنظیم حزب اللہ کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شام میں حزب اللہ کا ونگ قائم کیا جا رہا ہے جبکہ ایران پہلے ہی شام میں پاسدارانِ انقلاب کی طرز کی فورس قائم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے، یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ روس اپنے حامی گروہوں کو امداد فراہم کر رہا ہے جبکہ کردوں کی دہشت گرد تنظیم بھی شامی محافظ دستوں کے خلاف برسرِپیکار ہو چکی ہے اور اطلاعات ہیں کہ شام کے محافظ دستوں اور باغی کردوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ ان حالات میں شام کے انقلابی حکمران احمد حسین الشرع نے اعلان کیا ہے کہ شام کی وحدت کو محفوظ رکھا جائے گا اور کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
شام کی صورتِ حال پر روس اور امریکا کی جانب سے مشترکہ طورپر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ یہ دونوں طاقتیں یوکرین تنازع کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے گفت وشنید پر تو متفق دکھائی دے رہی ہیں جیسا کہ یوکرین کے معاملے پر بھی جنگ بندی کے امکانات روشن ہیں لیکن اس امر کی کوئی ضمانت موجود نہیں کہ شام کے وسائل پر تسلط حاصل کرنے کے لیے یہ طاقتیں کسی فارمولے پر واقعی اتفاق بھی کرلیں گی۔ منافقت کی انتہا ہے کہ بشار الاسد کے طویل دورِ حکومت میں پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کے قتل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے والی یہ دونوں طاقتیں چند اقلیتی گروہوں کے تحفظ کے نام پر بات چیت کے لیے تیار ہو چکی ہیں لیکن فی الواقع یہ سب کچھ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے قدم جمائے رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ شام کا معاملہ اس کے شہریوں سے متعلق ہے یا یہ امریکا اور رو س کا مسئلہ ہے ؟شام کے عوام جو کہ ایک ظالم، سفاک اور انسانیت سے عاری ٹولے اور اس کے بدترین جبر سے نجات پانے کے بعد آزاد فضا میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں، یہ کیسے گوارہ کر سکتے ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے امریکا اور روس کے مابین مذاکرات میں طے کیے جائیں؟ یہی وجہ ہے کہ بغاوت کی اطلاعات ملتے ہی شام کے اہم شہروں میں عوام نے موجودہ حکمرانوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور مختلف ذرائع کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب نوجوان فوری طور پر بغاوت کے خلاف اپنی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ عوامی ردعمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شام کے عوام اپنے وطن کی تقسیم کو برداشت نہیں کریں گے جیسا کہ اس وقت اسرائیل اور ایران کی کوشش ہے۔ ایران اور ایران نواز جماعتیں حیرت انگیز طورپر اس وقت اسرائیل نوازی کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔ شام کو شطرنج کی ایسی بساط بنا لیا گیا ہے جس پر مختلف طاقتیں اپنے اپنے مہروں کو چلا رہی ہیں اور سب کی یہی کوشش ہے کہ شام کے کیک میں سے انھیں بڑا حصہ مل جائے۔ ان حالات میں ترکیہ کی حکومت شام کے عوام اور موجود ہ قیاد ت کی بھرپور حمایت کے لیے میدان میں موجود ہے۔ خبروں کے مطابق کردوں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال ہوا تو ترکیہ اس معاملے پر شامی امن فورس کا ساتھ دے گا۔ مبصرین کے مطابق شام کی موجودہ قیادت کو ملک کی تقسیم کے خطرات کا مقابلہ فوجی حل کی بجائے سیاسی مذاکرات کے ذریعے کرنا چاہیے لیکن شورش، بغاوت اور بدامنی کا تدارک بہرحال قوت ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے کہ ”عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد”۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے شام کی موجودہ قیادت کی حمایت کی جا رہی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب ممالک اس معاملے کو روس اور امریکا کی بجائے اپنا مسئلہ سمجھیں۔ شام میں ایران کی شکست اور عرب دوست حکومت کے قیام سے خطے میں بیرونی مداخلت کو زبرست دھچکا پہنچا ہے۔ شام کا استحکام دراصل عربوں کے استحکام کی وجہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایران نے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت عربوں کو تباہ و برباد کرنے کی جو بھی کوششیں کی ہیں، ایک مضبوط و مستحکم شام ان تمام کاوشوں کا جواب ثابت ہوگا۔ جبکہ یہی خطرہ اسرائیل کے لیے بھی موجود ہے۔ شام کی حالیہ صورتِ حال نے اسرائیل اور ایران کے درمیان قائم عرب دشمنی کے مشترکہ مقصد سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے، اس لیے عرب ممالک کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے شامی قیادت کو بھرپور وسائل فراہم کرنا چاہئیں تاکہ اول تو شام کی تقسیم کے خطرات کا تدارک کیا جا سکے، ثانیاً شام کو ایک ایسی پرامن ریاست بنایا جا سکے جو اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے سیاسی و عسکری دونوں محاذوں پر اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہو۔
طور خم بارڈر کھولنے کے لیے جرگے کا انعقاد
پاک، افغان سرحد پر طور خم گزرگاہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری جھڑپوں کی وجہ سے بندش کا شکار ہے جس کی وجہ سے دونوں جانب کے ہزاروں شہریوں کو معاشی و دیگر مسائل کا سامنا ہے، دونوں جانب کے قبائلی عمائدین اور تاجر حضرات ایک مشترکہ جرگے صورت میں صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہیں، یہ کوششیں جاری رہنی چاہئیں کیوں کہ دو پڑوسی ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ دراصل دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ پڑوسی ملک سے ہونے والی دراندازی اور فتنۂ خوارج کی سرگرمیاں ہیں جنھیں بدقسمتی سے پڑوسی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اور جب تک جہل، تعصب، غرور اور انتقام کے جذبات پر قابو پاکر عقل و دانش، حکمت و بصیرت اور شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، دونوں ملکوں کے حالات معمول پر نہیں آ سکتے۔ اب یہ افغان عبوری حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا راستہ اختیار کرتی ہے۔