حکومت اب عوام کی معیشت پر بھی توجہ دے

موجودہ حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کیے گئے ”اپسوس” نامی ادارے کے صارفین کے اعتماد کے سروے کے مطابق معاشی خدشات پاکستانیوں کو بدستور پریشان کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 10 میں سے 7 پاکستانیوں کے خیال میں ملک غلط راستے پر گامزن ہے، عالمی سطح پر غلط جذبات کی اوسط 63 فیصد ہے جو پاکستان کے اعداد و شمار سے کچھ کم ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 پاکستانی ملک کی موجودہ معاشی حالت کو کمزور قرار دیتے ہیں۔

یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کئی دنوں سے اپنی ایک سال کی بزعم خویش ”شاندار کارکردگی” کا مسلسل ”جشن” منا رہی ہے، اس سلسلے میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہارات اور اشتہار نما خبریں چلوائی جا رہی ہیں، جن کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت اب بہتری کی طرف گامزن ہے اور معاشی ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے، جبکہ دوسری طرف عوام کو اپنے زندگی کے شب و روز میں قدم قدم اور لمحہ لمحہ جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ حکومت کی جانب سے دکھائے جانے والے اس سبز باغ سے مختلف کہانی سناتے اور منظر دکھاتے ہیں اور یہ وہ حقیقی صورتحال ہے جس کا پاکستان کے عوام اور ہر فرد و شہری کو سامنا ہے۔ اپسوس کی سروے رپورٹ مظہر ہے کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس عوام کیلئے معاشی حالات بدستور پریشان کن ہیں۔ اس سروے کے مطابق عوام کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ملک غلط سمت میں گامزن ہے۔ سروے رپورٹ میں کسی قدر امید اور رجائیت میں اضافے کا بھی ذکر ہے اور یہ امر قابل تسلیم ہے کہ موجودہ حکومت کے بعض معاشی اقدامات سے میکرو سطح کے بعض معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے تاہم اس سے بالکل بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ عوام کے معاشی حالات بھی بہتر ہوگئے ہیں۔ اس لئے یہ امر ناگزیر ہے کہ حکومت کو ان کاغذی اعدادوشمار پر ہی تکیہ کرکے مطمئن نہیں بیٹھنا چاہیے، بلکہ درست زمینی حقائق کا ادراک کرکے اس کے مطابق ہی اپنی پالیسیوں اور رفتار کا رخ متعین کرنے پر توجہ دینا چاہیے، اسی سے حکومت کو وہ درست راہ میسر آسکتی ہے، جس پر چلتے ہوئے وہ معیشت کو عوام کی زندگی کے شب و روز کے مسائل کے مطابق ترقی دینے کی طرف قدم اٹھا سکتی ہے۔

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عام شہری کی زندگی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ دشوار ہو چکی ہے۔ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، بیروزگاری کی شرح میں غیر معمولی اضافہ اور کاروباری طبقے کی غیر یقینی صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ معاشی بہتری کے حکومتی دعوے برسرزمین حقائق سے لگا نہیں کھاتے ۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ صرف کاغذی اور حساباتی میزان پر معاشی اشاریوں کو بہتر دکھانے کی کوشش کرنے کی بجائے حقیقی معنی میں ایسے اقدامات کرے جو عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی اور ان کے مسائل، مشکلات اور پریشانیوں میں کمی کا سبب بنیں۔ نوجوانوں میں مایوسی کی بنیادی وجہ ملازمتوں کے مواقع کی کمی ہے اور جب ملک میں روزگار کے مواقع کم ہوں اور بے روزگاری کی شرح میں ہر گزرتے لمحے اضافہ ہو رہا ہو تو معیشت کی ترقی کے تمام دعوے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ معاملے کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات محدود تر ہو تے جا رہے ہیں اور کاروباری طبقہ سرمایہ کاری کے آؤٹ پٹ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پاکستان میں معاشی استحکام کے کچھ مثبت پہلوؤں کا ذکر ضرور کیا گیا ہے، لیکن یہ استحکام اس وقت تک بے معنی ہے جب تک عوام کو اس کے ثمرات محسوس نہ ہوں۔ ایک ایسی معیشت جس میں عام آدمی اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو، جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں اور جہاں عام شہری کو اپنے بچوں کی تعلیم اور علاج کیلئے پریشان ہونا پڑے، وہاں ترقی اشتہارات میں ہی دکھائی جا سکتی ہے!

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ بیورو کریسی کی ”سب اچھا ہے” کی رپورٹس اور عالمی اداروں کے غیر حقیقی سرویز پر اعتماد کرکے اپنی ”شاندار کارکردگی” پر شادیانے پیٹنے کی بجائے زمینی حقائق کے مطابق حالات کا جائزہ لے اور اس کی روشنی میں اپنی پالیسیوں کی تشکیل کرے۔ اسی سے حکومت کو اپنی پالیسیاں زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنانے کی راہ مل سکتی ہے اور یہی درست سمت میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ ملک میں بیروزگاری کے خاتمے، مہنگائی کے بگٹٹ دوڑتے گھوڑے کو لگام دینے اور کاروباری طبقے کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ بنیادی مسائل حل نہیں کیے جاتے، عوام میں مایوسی کم نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو اگر ”جشن یک سالہ” سے فرصت مل گئی ہے تو اب اسے اپنی کامیابیوں کی خیالی دنیا سے باہر آکر عوام کو درپیش پاکستان کی حقیقی معاشی صورتحال سے نمٹنے پر بھی کچھ توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

ناجائز منافع خوری۔ خود احتسابی کی ضرورت

یہ کس قدر مسرت و شادمانی کا موقع ہے کہ ایک بار پھر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہے، مگر یہ کس قدر افسوس، دکھ اور اذیت ناک امر ہے کہ ماہ مقدس کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں سبزیوں، پھلوں سمیت کھانے پینے کی تمام اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ماہ مقدس نیکیاں کمانے کا موسم بہار ہے، لیکن ہوس کے پجاریوں نے نعوذباللہ ماہ مبارک کو کسی بھی طریقے سے دولت کمانے کا ایک سیزن اور موقع بناکر رکھ دیا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بدترین عمل اسلام دشمن کر رہے ہوں اور اس مصنوعی اور موسمی گرانی کا مقصد مسلمانوں کو سزا دینا یا ان سے انتقام لینا ہو۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسلام دشمنوں والے یہ کام کلمہ گو ہی کر رہے ہیں۔ رمضان کو نیکیوں کی بجائے مال کمانے کا سیزن بنانے کی یہ روش ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے دین کی تعلیمات سے اپنے باطن کو، اپنے اعمال و کردار، اپنے کام، کاروبار اور بازار کو روشناس ہی نہیں کرایا ہے۔ حکومت کی ذمے داری ثانوی درجے کی چیز ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ دکاندار سے لیکر کارخانہ دار اور ٹھیکیدار تک سب اپنے عمل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ رمضان المبارک کو ناجائز منافع خوری کا سیزن بناکر انسانیت کو کس قدر اذیت سے دوچار کر رہے ہیں۔