یوکرین پر امریکی موقف، کیا یہ واحد حل ہو سکتا ہے؟

امریکی صدر ٹرمپ نے کابینہ کے پہلے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے یوکرین تنازع پر اپنی حکمتِ عملی کی جو وضاحت کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ و ہ یوکرین تنازع سے امریکا کو صاف بچا کر اب یورپ کو روس کے بالمقابل لانا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ یورپ کو اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا چاہیے اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود سنبھالنی چاہئیں۔ یوکرین کے حوالے سے امریکی حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کو تحفظ کی ضمانت اب ہم نہیں، یورپ دے گا۔ ہم یوکرین سے اپنے پیسے واپس لیں گے۔ اس سلسلے میں یوکرین کے صدر ایک بڑے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے امریکا آ رہے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ یورپی یونین پر بہت جلد ٹیکس عائد کرنے والے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے امریکی صدر نے بظاہر اپنے موقف میں ترمیم کی ہے اور جنگ بندی کے تسلسل کو اسرائیل کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ پالیسی بیان میں امریکی صدر نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور دنیا میں امن کے قیام کو اپنی ترجیح قرار دیا، گویا ٹرمپ کابینہ اپنے تئیں جنگ سے فرار کو ہی مسئلے کا حل سمجھ رہی ہے۔
امریکا کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا خلاصہ ”سب سے پہلے امریکا“ ہے۔ ان کا بنیادی موقف یہ ہے کہ اگر امریکا نے اخراجات کم نہ کیے تو بہت جلد وہ دیوالیہ ہو جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار اور چند اہم ترین اور سب سے زیادہ پیداوار دینے والی ریاستوں میں علیحدگی پسند عوامی مہم نے امریکی قیادت کو خارجی اور داخلی پالیسیوں میں توازن کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکا میں ایک بڑے طبقے کا اب خیال یہ ہے کہ عالمی بالادستی قائم رکھنے کی تگ دو میں کہیں وہ اپنے داخلی استحکام ہی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کی جنگ سے پچھلے قدموں دور ہونے کی کوشش میں ہیں اور اپنے سر پڑنے والی بلا کو یورپ کے گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوکرین کی جنگ کو یورپ کے کھاتے میں ڈال کر پچھلے قدموں ہٹنا ہی واحد پالیسی ہے جو امریکا اختیار کر سکتا ہے یا کوئی اور راستہ بھی ہے؟ کیا یوکرین کی جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنے سے دنیا میں جاری تنازعات اور خاص طورپر روس اور یورپ کے درمیان رسہ کشی کا ابھرتا ہوا منظر تحلیل ہو جائے گا یا امریکا کو ان قضایا میں کسی نہ کسی صورت ملوث ہی رہنا ہوگا۔

ایران کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک نئی اطلاع اور حالات و واقعات اور حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب مزید واضح ہو سکتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ ایران جوہری صلاحیت کے حصول میں مسلسل پیش رفت کر رہا ہے اور اب وہ ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یورنیم کی افزودگی میں ایران کی کامیابی کی اطلاعات امریکا اور یورپ کی خفیہ ایجنسیوں نے دی ہیں جبکہ جوہری طاقت کے پھیلاو پر نظر رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ماتحت ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی جانب سے بھی اس امر کی تصدیق کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایران کے پاس جوہری طاقت کی موجودگی مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے اس توازن کو قائم نہیں رہنے دے گی جو کہ گزشتہ ستر سالوں سے یورپ اور امریکا یہاں قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کو اپنے مفادات کے موافق رکھنے کے لیے امریکا اور یورپ کئی برسوں سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ ایرانی معیشت جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود ایران نے اس راستے پر سفر جاری رکھا ہوا ہے جو نہ صرف یورپ کے لیے تشویش کا باعث ہے بلکہ عرب ممالک کو بھی اس طاقت کے ممکنہ اثرات کا اچھی طرح اندازہ ہے چنانچہ موجودہ عالمی صورتِ حال میں ایران کی یہ کامیابی فی الواقع کھیل کا رخ تبدیل کر سکتی ہے اور امریکا کے لیے بہت دشوار ہوگا کہ وہ جنگوں کے کھیل سے خود کو نکال سکے۔ اس کے اثرات روس اور امریکا کے درمیان جاری مذاکرات، افہام و تفہیم کے ماحول اور یوکرین جیسے مسائل میں نئی پیچیدگیوں کی صورت سامنے آئیں گے جیساکہ اس وقت بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ روس اور ایران یوکرین کی جنگ میں اتحادی ہیں۔ امریکا اگر یوکرین کے مسئلے پر روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنا بھی چاہے تو ایران کا مسئلہ لاینحل رہے گا اور امریکا کو اس معاملے پر یورپ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ امریکا اس قضیے سے عرب ممالک کے ساتھ وابستہ مفادات کی وجہ سے بھی جان نہیں چھڑا سکے گا تاہم یہ ممکن ہے کہ ایران کا خوف دلا کر امریکا سعودی عرب کو بریکس اتحاد میں شمولیت سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ سے پچھلے قدموں ہٹنے کے باوجود امریکا تنازعات سے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ روس واقعی امریکا کو نکلنے کا راستہ فراہم کر دے اور وہ اپنے معاملات یورپ کے ساتھ دوبدو نمٹانا چاہے۔ یوں بھی روس کی ممکنہ پیش قدمی کا رخ یورپ ہی کی جانب ہے۔ یورپ پر گزشتہ تین برسوں سے جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یورپ نے اپنی دفاعی طاقت کا اہم حصہ ازخود تحلیل کر دیا ہے۔ اس کے پاس لڑنے والی افواج کی قلت ہے۔ ان حالات میں روس کی پیش قدمی اور ایران کے پاس جوہری طاقت کی موجودگی کے امکانات یورپ کے لیے مسائل کو دوچند کر دیںگے۔ امریکا خود تو طویلے کی بلابندر کے سر ڈال کر دنیا میں امن و شانتی کا پرچار کرنا چاہتا ہے لیکن دنیا بھر میں جنگوں کا جو سلسلہ اس نے شروع کیا تھا، اس کا اختتام محض امن کے گیت گانے سے نہیں ہو سکتا۔ یوکرین کو یورپ کا مسئلہ قرار دے کر راہِ فرار اختیار کرنا دراصل دنیا میں طاقت کے نئے نظا م کا اعلان ہوگا، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یک قطبی دور کا اختتام طاقت کے نئے جزیروںکے ابھرنے سے ازخود ہو جائے گا یا اس موقع پر تاریخ کسی مکافاتِ عمل کا منظر بھی دکھائے گی؟

کیا یورپ کی تاریخ میں ایک مرتبہ اٹھارہ سو پندرہ کی ویانا کانگریس کا منظر دہرایا جا سکے گا جس میں یورپ میں طاقت کے توازن کو طے کیا گیا تھا؟ بالفرض ایسا ہی ہوا اور یورپ طاقت کے توازن کے کسی نئے نظام پر رضامند ہو بھی گیا تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ سب کچھ جنگوں کے ایک بھیانک سلسلے کے بغیر ممکن ہو جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے عالمی بالادستی، ہمہ گیر غلبے اور طاقت کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے گزشتہ چند صدیوں میں جو کچھ بویا ہے، اب اس کے کاٹنے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ امریکا طویلے کی بلابندر کے سال ڈال کر بھی اپنے گھوڑوں کو نہیں بچا سکتا۔ فی الوقت اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ دوسروں کو جینے کا حق دیا جائے اور دنیا پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط نہ کیے جائیں۔