وزیراعظم شہباز شریف ازبکستان کے دو روزہ دورے پر تاشقند پہنچ گئے، جہاں ازبک وزیراعظم، وزیرخارجہ اور تاشقند کے میئر نے ان کا استقبال کیا۔وزیراعظم نے ازبک صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں اور تجارتی معاہدوں پر بات چیت کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ ازبکستان دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے، دورے کے دوران پاکستان اور ازبکستان کے مابین زراعت، علاقائی روابط، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوں گے، جس سے پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔قبل ازیں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے باکو آذربائیجان میں آسان خدمت مرکز کا دورہ کیا۔ آذربائیجان کے صدر کی زیر نگرانی عوامی خدمت اور سماجی اختراع کی ریاستی ایجنسی کے چیئرمین الوی مہدییف نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔انہوں نے آسان خدمت کی ایک ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنے اور باہمی تعاون کے مواقع تلاش کرنے کی دعوت دی۔
معاشی استحکام کیلئے بیرونی سرمایہ کاری نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی ملک محض قرضوں کے سہارے ترقی نہیں کر سکتا بلکہ اس کیلئے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ناگزیر ہوتا ہے۔ برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کے بغیر دنیا کے کسی ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ آج کی دنیا کی معیشت کا دارومدار ڈالر پر ہے اور وہی ممالک معاشی استحکام حاصل کر سکتے ہیں جو اپنی برآمدات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ زرِ مبادلہ کمانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رکھتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ بیرونی تجارت پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلا کر خودانحصاری کی منزل کی طرف بڑھا جا سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ایسے اقدامات پر توجہ دے جو سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں اور کاروباری ماحول کو مزید سازگار بنائیں۔ کاروباری سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ آسان اور بہتر بنا کر ہی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے قائم کردہ سرمایہ کاری سہولت کونسل بھی اسی تصور پر قائم ہے، تاہم اس کا دائرہ مقامی سرمایہ کاری اور اندرون ملک تجارت و صنعت تک بھی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی تاجروں کو بھی انتظامی پیچیدگیوں سے نجات ملے اور زیادہ بہتر اور ہم آہنگ ماحول میں بغیر کسی پریشانی اور الجھن کے کاروبار اور سرمایہ کاری کرسکیں۔
معاشی استحکام اور ترقی کیلئے پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا نہایت ضروری ہے۔ ان ممالک کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور سفارتی روابط قائم کر کے پاکستان نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکتا ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو فروغ دے کر پاکستان خطے میں ایک اہم تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ ایسے معاہدے اور راہداری منصوبے، جو پاکستان کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی فراہم کریں، بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ تاپی گیس پائپ لائن جیسے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے، اس کے ذریعے وافر اور سستی گیس میسر آئے گی، جو تجارت و صنعت کے فروغ اور روزگار کے وسائل میں اضافے کا باعث بنے گی۔افغانستان اس خطے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط کو فروغ دینے کیلئے اس کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ سفارتی تناؤ تجارتی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جسے مذاکرات اور باہمی مفاہمت کے ذریعے دور کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ سرگرم تجارتی روابط استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ملکی معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کرے گا۔
بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی انتظام میں بھی ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے، جو طویل مدتی ترقی کا باعث بنیں۔ معیشت و تجارت سے وابستہ امور کو بیورو کریسی کی پیچیدگیوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے، مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے حکومت کو نئی صنعتی پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ درآمدات پر انحصار کم کیا جا سکے اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی، زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت اور سفارتی تعلقات بڑھانے کا یہ وقت نہایت موزوں ہے۔ وزیراعظم کا حالیہ دورہ اس سمت میں ایک مثبت قدم ہوسکتا ہے۔ سرمایہ کاری، تجارت اور کاروبار کو فروغ دینے کیلئے سیاسی استحکام اور امن و امان کا ماحول بھی ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ملک کے اندر سیاسی استحکام اور قیام امن کیلئے جاری پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ جس سے ملک کے اندر انتشار اور تنازعات کی فضا ختم ہوسکے۔
عوامی ریلیف بھی آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط
آئی ایم ایف جائزہ مشن 3 مارچ کو اقتصادی جائزے کیلئے پاکستان پہنچے گا۔مذاکرات تکنیکی اور پالیسی سطح کے ہوں گے، آئی ایم ایف آیندہ بجٹ کیلئے تجاویز دے گا، جس کے دوران تنخواہ دار طبقے کو ریلیف آئی ایم ایف کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔پاکستان دہائیوں سے آئی ایم ایف پروگراموں کا حصہ رہا ہے، جو مالی مشکلات سے نکلنے کا انتہائی مجبوری میں چنا جانے والا راستہ ہے، تاہم اس ادارے کی شرائط عام آدمی کیلئے اکثر مشکلات کا سبب بنتی ہیں۔ خاص طور پر بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کی تجاویز نہ صرف حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوں گی بلکہ عوامی مشکلات میں اضافے کا بھی سبب بنیں گی۔ تنخواہ دار طبقے کو کسی ممکنہ ریلیف کی فراہمی بھی آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط کر دی گئی ہے، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملکی معیشت پر اس ادارے کا اثر و رسوخ کس قدر بڑھا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ملکی مفادات کو اولین ترجیح دے اور ایسے فیصلے کرے جو معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ریلیف فراہم کریں۔