دہشت گرد ریاست اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے درمیان مذاکراتی عمل کے تیسرے دور کا آغاز ہونے والا ہے، تاہم اس سے قبل عالمی مجرم نیتن یاہو نے معاہد ے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے جواب میں طے شدہ چھ سو سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عمل کو منسوخ کردیا، جس کے جواب میں حماس کی جانب سے بھی فلسطینی قیدیوں کی رہائی تک مذاکراتی عمل شروع نہ کیے جانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
عالمی مجرم نیتن یاہو کے مطابق فلسطینی حریت پسند اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے مناظر عالمی میڈیا پر پیش کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے، جو کہ اسرائیل کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ عمل اسرائیل کی تذلیل اور معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ لہٰذا فلسطینی قیدیوں کی رہائی اُس وقت تک مؤخر رہے گی جب تک معاہدے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے والی ریاستیں یہ یقین دہانی نہ کرا دیں کہ حریت پسند تنظیمیں یرغمالیوں کی رہائی کو میڈیا پر نہیں دکھائیں گی اور اسرائیل کی تذلیل نہیں کی جائے گی۔ نیتن یاہو کی ضد اور ہٹ دھرمی کے جواب میں حماس کے ترجمان نے واضح کیا کہ اسرائیل متعدد مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے لیکن فلسطینی مزاحمت کار صبر اور سکون کے ساتھ معاہدے کی شرائط کی پابندی کر رہے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے وعدے کو ہر قیمت پر پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اسرائیل جارحیت کا کوئی جواز تلاش کرنا چاہتا ہے۔
لبنان میں حسن نصر اللہ او ر ان کے نائب کے جنازے کے اجتماع پر اسرائیلی جنگی طیاروں کی نیچی پرواز اور شام کے اندر زمینی قبضے جیسے اقدامات بتاتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت اس وقت جھلاہٹ، کوفت اور غیض و عضب کے عالم میں ہے۔ فلسطینی حریت پسندوں نے اسرائیل کو مذاکرات پر مجبور اور اپنے قیدیوں کی رہائی پر اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی آمادہ کرکے فتح حاصل کرلی ہے۔ کسی حکومت اور ریاستی طاقت نہ ہوتے ہوئے محض عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اسرائیل جیسی طاقت کی شکست فی الواقع ایک تاریخی کارنامہ ہے، جس نے ماضی کی سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ دُہرا دی ہے، جب عثمانی سالار اپنے وطن سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر مہینوں کی جنگیں لڑ کے دشمنوں کو ہزیمت سے دوچار کر دیا کرتے تھے۔ حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کی اس تاریخی فتح نے عرب نوجوانوں کے قلوب میں موجود صہیونی طاقت کا رہاسہا خوف بھی دور کر دیا ہے۔ مسلم نوجوان مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی پشت پر موجود امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طاقتیں پورا زور صرف کرنے کے باوجود اہلِ غزہ کے عزم کو بفضلہ تعالیٰ متزلزل کرنے میں ناکام رہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ جو کہ غزہ کی جنگ بندی کو اپنا کارنامہ گردانتے ہیں، غزہ پر تسلط کی ضد سے بظاہر دستبردار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ مزاحمتی تنظیموں نے دوٹوک انداز میں بتا دیا تھا کہ اہل غزہ اور مجاہدین اپنی سرزمین سے کسی بھی صورت میں ہجرت نہیں کریں گے۔
مجاہد تنظیموں نے جہاں زمینی مقابلے میں جنگی مہارت اور بے پناہ قوتِ برداشت کا ثبوت پیش کیا’ وہاں قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور جنگ بندی کے معاہدے پر ایفائے عہد کے ذریعے بھی انھوں نے اسلامی روایات کی یادیں تازہ کردیں۔ حقیقت یہی ہے کہ عالمی طاقتوں کے غلبے اور ان کے ناجائز دباؤ کے جواب میں مسلم مزاحمتی تنظیموں کو اپنے قول وفعل میں مکمل ہم آہنگی سے کام لینا ہوگا، تاکہ اسلام کی دعوت کے راستے میں ان کے غیرمحتاط عمل رکاوٹ نہ بن جائے۔ سیرت النبی میں مہارت رکھنے والے علماء کرام نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ کسی غیرضروری عمل کے ذریعے دشمنوں کے پروپیگنڈے کو ہوا دینے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ کے منظر نامے میں پیش آنے والے ان واقعات کی روشنی میں پاکستان اور اس کے پڑوس میں موجود افغانستان میں پیدا شدہ صورتِ حال اہلِ فکر و دانش کو غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے۔ علماء کو قرآن وسنت اور سیرتِ طیبہ نیز فقہاء کرام کی تصریحات کے تناظر میں غور کرنا چاہیے کہ دو مسلم ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والی کدورت، آویزش اور باہمی کشیدگی کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے؟ ایک طرف مجاہدین کی قید میں دس برس گزارنے والے قیدی بھی ان کے حسنِ سلوک کا اعتراف ایک رضاکار کی پیشانی کو چوم کرر ہا ہے تو دوسری جانب نفرت و انتقام اور دشمنی کا یہ عالم ہے کہ کلمہ گو مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا اور فقہا ء کرام کی تصریحات کے برخلاف اس جنگ کو جہاد کا نام دیا جا رہا ہے، جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی خیر نہیں ہے، بلکہ اس میں پوشیدہ شر پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ملکوں کے لیے شدید مضمرات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
اسرائیل کی مسلم کش پالیسیوں اور عرب دشمنی پر مشتمل اقدامات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کو توسیع پسندانہ حکمتِ عملی ہی میں مضمر خیال کررہا ہے اور یہی صورتِ حال جنوبی ایشیا میں بھارت کی ہے جو کہ خطے میں سفید فام اقوام بالخصوص امریکی مفادات کے محافظ کا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ اسرائیل وہی ملک ہے جس نے برما کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرکے علاقائی سطح پر مسلم کش اقدامات کے لیے اپنے ساتھی کے طورپر چن رکھا ہے، ایسے میں بھارت، اسرائیل دوستی بھلا خطے کی سلامتی اور بالخصوص مسلمانوں کی آزادی کے لیے کیسے خطرہ نہیں ہوسکتی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے۔ شام اور فلسطین دونوں ہی اسرائیلی جارحیت کے اوّلین ہدف ہوسکتے ہیں۔ مسلم اُمہ کو بھی اپنا دفاع ان خطوں کی حفاظت میں ہی پوشیدہ سمجھنا چاہیے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی کا درست علاج وہی ہے جو کہ فلسطین کی رضا کار تنظیموں نے منتخب کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کے غلبے اور علاقائی مفادات کا مقابلہ مل جل کر ہی ہوسکتا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی کی تیاری
ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حکومت نے مختلف پیداواری کمپنیوں سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور خبروں کے مطابق فی یونٹ چھ سے سات روپے کمی متوقع ہے۔ فی الواقع توانائی کے بحران اور بھاری ٹیکسوں کے نفاذ نے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ترقی کا یہ طریقہ غیرفطری ہے کہ عوام کو ٹیکسوں کے عذاب میں مبتلا کرکے ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ سب آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑبندیاں ہیں جو سود کی صورت میں ہم جیسے غریب ملکوں کا لہو چوس کر عالمی طاقتوں کو فراہم کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام کو وسائل فراہم کرے اور لوگوں کو تربیت دے کر کارآمد بنایا جائے، حکومت جہاں بجلی کی قیمتوں میں کمی کررہی ہے وہاں ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ میں بھی تبدیلی کرنی چاہیے اور بلوں کے اندراج میں منصفانہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔