Arab Dunyia

پرچم سلسلہ 10

عرب دنیا

سروہارا امباکر

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بائیس ممالک ہیں جو عرب ہیں۔ کل ملا کر اُن کی آبادی تیس کروڑ سے زائد ہے۔ یہ بحر اوقیانوس پر مراکو سے بحیرہ روم کے مصر اور پھر مشرق اور جنوب میں کویت، عمان اور بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں عربوں کے علاوہ کرد، بربر، دروز اور کلدانی بھی ہیں لیکن زبان اور مذہب بڑی حد تک مشترک ہے۔ زیادہ تر لوگ عربی بولتے ہیں اور مسلمان ہیں۔

پہلی جنگ عظیم کے وقت میں عرب دنیا میں ترک قبضے کے خلاف بغاوت ہوئی۔ عربوں کی اس تحریک میں سفید، سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کا جھنڈا استعمال ہوا۔ ان رنگوں کی تاریخِ اسلام اور تاریخِ عرب میں اہمیت تھی۔

عربوں کی پین عرب ازم کی تحریک سیاسی طور پر ناکام آئیڈیا رہا۔ (اگرچہ سیریا، اردن، یمن، عمان، عرب امارات، کویت، عراق اور فلسطین میں اس کے کچھ حامی موجود ہیں)۔

عرب کا یہ جھنڈا 1916ء میں حجاز کے شریف حسین نے ڈیزائن کیا اور بلند کیا تھا۔ انھیں امید تھی کہ عرب قبائل عثمانی سلطنت سے آزادی کی مشترک جدوجہد میں اس جھنڈے تلے اکٹھے ہو جائیں گے۔ عربوں کی اس تحریکِ آزادی کو برٹش حمایت حاصل رہی تھی۔
عرب بغاوت کے اس جھنڈے میں تین پٹیاں تھیں۔ سیاہ اوپر، سبز درمیان میں اور سفید اس سے نیچے۔ بائیں طرف سرخ مثلث تھی جو دائیں طرف اشارہ کر رہی تھی۔ عثمانی جھنڈے میں چاند تارہ تھا، اس لیے اسے عرب جھنڈے سے نکال دیا گیا تھا۔
٭

سفید رنگ بنو امیہ کی حکومت کا تھا۔ اس حکومت کا مرکز دمشق میں تھا۔ یہ 661 سے 750 تک بڑی اسلامی سلطنت پر حاکم رہے تھے جو مغرب میں پرتگال اور مشرق میں سمرقند تک پہنچی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امیہ نے سفید رنگ کا انتخاب غزوہ بدر میں اسلامی فوج کے سفید جھنڈے کی وجہ سے کیا تھا۔

امیہ کا تخت الٹا کر آنے والا خاندان عباسیوں کا تھا۔ انھوں نے سیاہ رنگ منتخب کیا تھا۔ ایک وجہ تو پچھلے دور سے الگ شناخت بنانے کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ رنگ نبوت کے دور کے عَلم کا بھی تھا۔

سبز رنگ فاطمیوں کا تھا۔ یہ 909 سے 1171 تک رہنے والی سلطنت تھی۔ شمالی افریقہ سے شروع ہونے والی سلطنت جس نے سبز رنگ اپنایا تھا۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسندیدہ رنگ تھا، اور فتح مکہ کے وقت فاتحین سبز جھنڈا لے کر گئے تھے۔ آج یہ رنگ اسلامی دنیا میں علامتی طور پر بہت استعمال ہوتا ہے۔

سرخ رنگ کی وجہ زیادہ واضح نہیں لیکن کچھ اسکالرز کا خیال ہے کہ یہ بنوہاشم کا رنگ تھا جو کہ شریف حسین کا قبیلہ تھا۔
٭

آج عرب ممالک میں اپنے اپنے جھنڈے ہیں لیکن شریفِ مکہ کے اس جھنڈے سے ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔
٭

کسی بھی دوسرے جھنڈے کی طرح، ان علامتوں کے معنی کا انحصار دیکھنے والے کی آنکھ پر ہے۔ اگر کسی کو تاریخ کی باریکیاں معلوم نہیں، تب بھی یہ معنی ویسے ہی رہتے ہیں۔ مینا العربی کے مطابق ’’زیادہ تر عرب 1916ء کے جھنڈے سے واقف ہیں۔ ان رنگوں کی اپنی تاریخ بھی عام طور پر جانی پہچانی ہے۔ یہ عرب شناخت کے رنگ ہیں۔‘‘(جاری ہے)

٭٭٭

علاج

محمد انور بن اختر
ایک دن حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کی آنکھ میں کچھ ایسا زخم پیدا ہوا کہ طبیب نے معائنہ کرنے کے بعد کہہ دیا کہ حضرت اب اس کا علاج یہی ہے کہ آپ اس آنکھ کو پانی سے بچا کے رکھیں، ورنہ پانی پڑنے کی صورت میں بینائی زائل ہونے کا امکان ہے۔ یہ سن کر آپ مسکراپڑے اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے۔ ’’ہم تو نذرانۂ جان لیے کھڑے ہیں اور یہ طبیب بینائی جانے سے ڈرا رہا ہے۔‘‘

چنانچہ آپ نے اس غیر مسلم طبیب کی بات کا بالکل خیال نہ کیا اور وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھنا شروع کر دی اور حسبِ معمول ساری رات عبادت میں گزاری۔

اگلے دن جب وہ طبیب معائنے کے لیے آیا تو اس نے حیرت سے آپ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

’’حضرت! یہ آنکھ ایک ہی رات میں کیسے درست ہوگئی۔‘‘

’’وضو کرنے سے۔‘‘جنید بغدادی رحمہ اللہ نے اطمینان بھرے لہجے میں اسے جواب دیا۔ یہ سن کر طبیب بہت شرمندہ ہوا اور صدقِ دل سے اسلام پر ایمان لے آیا۔

٭٭٭