وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب
میں نے سوچا کہ یہ جسمانی طور پر بہت تگڑا ہے تو مضبوط بھی ہوگا۔ اس پر چاپ کا تجربہ کرنا چاہیے۔ وہ جیسے ہی میرے قریب آیا میں اس کے سر پر چاپ سے وار کیا۔ وہ چاپ ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے سر پر چاپڑ مار دیاہو۔ اس کا سر درمیان سے پھٹ گیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔
یہ دیکھ کر بہت سے لوگ تو ڈرکر بھاگ گئے۔ میں نے ایک دو بندوں کو ساتھ ملایا اور ہم ایک ٹیکسی میں ڈال کر اسے اسپتال لے گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے اپنے ساتھ والے بندوں کو بھگادیا اور ڈاکٹروں سے کہا کہ اسے چوٹ لگ گئی ہے، جلدی سے دیکھیں۔ پہلے تو ڈاکٹر تیار نہیں تھے لیکن پھر انھوں نے دیکھا کہ زخمی خطرے میں ہے تو اسے داخل کرلیا۔ اتنی دیر میں پولیس بھی آگئی۔ پولیس والوں نے ڈاکٹرو ں سے بات چیت کی پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ کیسے زخمی ہوا ہے؟ میں نے انھیں بتادیا کہ لڑائی ہوگئی تھی۔ اس نے خنجر سے حملہ کیا تھا، جواب میں اسے میں نے مارا۔
پولیس والوں نے کہا کہ آلۂ ضرب کہاں ہے؟
میں نے بتایا کہ میں نے اسے ہاتھ سے مارا ہے۔ وہ نہ مانے اور مجھے تھانے لے گئے۔ ایس ایچ او مجھے نہیں جانتا تھا اور میں اسے اپنے کام کے بارے میں بتانا نہیں چاہتا تھا۔ خیر بات بڑھ گئی۔ ایس ایچ او نے مجھے لاک اپ کردیا اور کہا کہ بندہ مر گیا تو تمھاری خیر نہیں۔ میں آلۂ قتل کہیں سے بھی برآمد کرلوں گا۔
اب میں دعا کررہا تھا کہ وہ غنڈہ نہ مرے۔ خد ا خدا کرکے رات کے وقت اسے ہوش آگیا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ جان تو بچ جائے گی لیکن اسے کچھ دن خصوصی نگہداشت میں رکھنا ہوگا۔ میرے بھائی کو معاملے کا علم ہوگیا تھا لیکن انھوں نے گھروالوں سے بات چھپا لی تھی۔ والدصاحب کو بھی نہیں بتایا تھا۔ وہ بھی تھانے پہنچ گئے اور دوسری طرف سے اس بدمعاش کے تعلق والے بھی آگئے تھے۔ وہ پرچہ کروانا چاہتے تھے۔ بھائی جان نے وکیل سے مشورہ کرنے کے بعد کہا کہ تمھیں جو کیس کرنا ہے کردو۔ ہم دیکھ لیں گے۔انھوں نے اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کروادیا اور جھوٹے گواہ ڈال کر لکھوایا کہ انعام نے ہمارے بندے کے سر پر کلہاڑی سے وار کیاہے۔ بھائی جان نے بھی کچھ اپنے تعلق والوں سے رابطہ کرلیا تھا اور تھانے والوں نے مجھے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ ہم نیوی ہیڈ کوارٹر سے اس بات کو چھپانا چاہتے تھے کیوں کہ نیوی والے کہتے کہ یہ کیسا آدمی ہے جو فورس میں ہو کر گلی محلے کے غنڈوں سے لڑائیاں کرر ہاہے۔ ایک دو دن میں معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ میں نے وکیل سے کہا کہ آپ صرف ضرورت کے موقع پر بات کرنا، ویسے جج سے خود ہی بات کرلوں گا۔
جج نے مجھ سے پوچھا کہ اس آدمی کو تم نے ہی مارا ہے؟
میں کہا کہ جی میں نے ہی مارا ہے۔
کہنے لگے وہ مرجاتا تو کیا ہوتا؟
میں نے جواب دیا کہ وہ خنجر سے مجھے مارنا چاہتا تھا،میں نے اپنا بچاؤکیاہے۔
جج نے پوچھا تم اسے کس چیز سے ضرب لگائی ہے؟ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے سرپر بارہ ٹانکے آئے ہیں۔
میں نے جواب دیاکہ میں نے اسے ہاتھ سے مارا ہے۔
اس پر جج ناراض ہوگیا،کہنے لگا کہ تم ہمیں بیوقوف سمجھتے ہو؟ وہ بندہ بچ گیا ہے لیکن ابھی بیان دینے کے قابل نہیں ہے۔ پولیس کو آلہ ضرب نہیں ملا۔ تم اعتراف نہیں کررہے۔ کیوں نہ تمھارا ریمانڈ لیا جائے؟
میں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو آپ اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آجائیں یا مجھے بلالیں، ابھی یقین آجائے گا۔
جج مجھے گھورنے لگا، پھر پوچھا، کیا کرتے ہو؟
میں نے جواب دیا کہ والد کی دکان پر ملازمت کرتا ہوں اور فارغ وقت میں لوگوں کے کام آتا ہوں۔ میرے وکیل نے کہا کہ دراصل پولیس نے دباؤ میں کیس بنایا ہے، ابھی تک قانونی کارروائی مکمل نہیں ہوئی۔ پولیس آلہ ضرب برآمد نہیں کرسکی۔ اس شخص نے میرے موکل پر خنجر سے حملہ کیا تھا۔ اس کے گواہ موجود ہیں۔ عدالت انھیں طلب کرسکتی ہے۔ خود مضروب ابھی بیان دینے کے قابل نہیں ہے۔ ہوسکتاہے کہ اسے جو چوٹ لگی ہے وہ دیوار یا پتھر کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے آئی ہو۔ پولیس آلہ ضرب تلاش کرلے توہی کوئی بات بنے گی۔
آخر یہ معاملہ چند دنوں کے موقوف کردیا گیا۔ وہ غنڈہ جب ہوش وحواس میں آگیا تو اس کے دوستوں نے کیس کے بارے میں بتایا، اس نے کہا، کوئی کیس نہیں کرنا۔ میں اس شہر میں رہنا ہی نہیں چاہتا۔ میں کوئی بیان نہیں دوں گا۔ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے؟ بس مجھے اسپتال سے چھٹی دلاؤ، میں واپس جانا چاہتاہوں۔
مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں اس سے ملنے گیا۔ جاتے ہوئے پھل، دیسی گھی، دودھ اور ملائی بھی لے گیا۔ بادام اور اخروٹ کا حلوہ اور یخنی بھی تھی۔ اسے کافی رقم بھی دی۔ اس کا علاج بھی بھائی جان نے اپنے ذمے لے لیاتھا۔ وہ کہنے لگا کہ تم عجیب آدمی ہو۔ مارتے بھی ہو اور کھلاتے پلاتے بھی ہو۔ میں نے تمھارا کیا بگاڑا تھا کہ مجھے اتنی خطرناک ضرب لگادی۔ میں نے کہا کہ بس غلطی ہوگئی۔ میں تمھیں کافی تگڑا سمجھ رہا تھا لیکن تم تو بس نام ہی کے بدمعاش نکلے۔
کہنے لگا کہ میں تمھارے خلاف کوئی کیس نہیں لڑوں گا۔ تم بھی مجھے معاف کردو اور یہ معاملہ ختم سمجھو۔ وہ جب تک اسپتال میں رہا، میں روزانہ اس کی عیادت کے لیے جاتا رہا۔ اس کے ساتھ دشمنی اپنی جگہ تھی لیکن انسان کو دوسرے کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ مردوں کی لڑائی بس میدان تک ہوتی ہے اور مقابلے کے وقت ہی ہوتی ہے۔ بیمار، زخمی اور کمزور دشمن کو نشانہ بنانا بزدلی کی بات ہے۔ انسان کو مردوں کی طرح مقابلہ کرنا چاہیے یا عزت کے ساتھ صلح کرلینی چاہیے۔
٭…٭
میں بتارہا تھا کہ ہنر سیکھنے کے لیے میں نے کافی محنت کی اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنا کر م فرمایا،اسی لیے میں یہ شعر اکثر اپنے شاگردوں کو سناتا رہتا ہوں کہ
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی میری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
میں اپنے شاگردوں کو بتاتا رہتا ہوں کہ اگر اچھا استاد اور اچھا کوچ بننا ہے تو کلامِ اقبال ضرور پڑھا کرو۔ مجھے علامہ اقبال اپنے پیر جیسے لگتے ہیں۔ ان کا کلا م میری طبیعت میں جوش پیدا کرتا ہے۔اس وجہ سے میں نے اپنے ہنر میں بہت ترقی کی۔
انگلی سے ضرب لگانے کی جو مشقیں میں شروع کی تھیں،ان میں ایک مرحلہ ایسا آگیا جب مجھے کسی جانور کے گوشت پر مشق کرنی تھی۔ میں سوچ میں پڑگیاکہ کیا کروں؟ جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں روزانہ اتنے گوشت منگوا سکتا۔ ایک دن میں گھر کے لیے گوشت لینے گیا ہوا تھا،قصاب کی دکان پر گائے کا کافی سارا گوشت لٹک رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس پر تجربہ کرکے دیکھتے ہیں۔ قسائی کی نظر بچا کر میں نے جب اس گوشت پر ضرب لگائی تو وہاں شگاف سا پڑگیا۔ اس تجربے سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں کسی انسان کی گردن یا دماغ کی نس پر یہ ضرب کامیابی سے لگا سکتا ہوں لیکن ناریل کا مرحلہ ابھی دور تھا۔
قسائی کی دکان پر گوشت پر جو میں نے مشق کی تھی، اس سے مجھے کافی تجربہ حاصل ہوا تھا۔ اب مجھے شوق ہوا کہ یہ تجربہ مزید بھی کیاجائے۔ میں بازار چلا گیا اور گوشت کی مختلف دکانوں پر جاکر وہاں چپکے سے مشق کرنے لگا۔ مجھے یہ خیال بھی تھا کہ کوئی قسائی دیکھ نہ لے۔ وہ تو چھری اٹھا کر پیچھے پڑ جائے گا۔ چند دنوں تک یہ حرکت کامیابی سے جاری رہی لیکن قسائیوں کو جلد ہی احساس ہوگیا تھا کہ کوئی گڑبڑ کررہا ہے۔ انھوں نے نگاہ رکھنا شروع کردی۔ میری جو شامت آئی تو ایک دکان پر میں نے کچھ زیادہ ہی مشق کرلی اور انھوں نے مجھے دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ سب اپنی دکانوں سے یکدم چھلانگیں لگا کر آگئے۔ ان کے ہاتھ میں چھریاں، ٹوکے، بغدے اور چاپڑ تھے۔ میں ان سے لڑ بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ غلطی میری تھی۔ میں نے ان کا نقصان کیا تھا۔ اب میں انھیں بتا بھی نہیں سکتا تھا کہ میں کون ہوں؟ بات گھر تک بھی جاسکتی تھی۔ انھوں نے میری پٹائی شروع کردی۔ انہی چھریوں اور بغدوں کی الٹی طرف سے مجھے خوب مارا، میں دو تین منٹ سر بچا کر اور منہ چھپا کر خاموشی سے مارکھاتا رہا اور جونہی موقع ملا، ان کا گھیرا توڑ کر بھاگ نکلا۔ قصاب میرے پیچھے بھاگے لیکن وہ موٹے موٹے تھے، تیزی سے دوڑ نہیں سکتے تھے۔ میں ان کے ہاتھ نہیں آیا۔ اس کے بعد یہ مشق میں دوبارہ نہیں کرسکا۔ ناریل کو انگلی سے توڑنے کی حسرت ہی رہ گئی کیوں کہ اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد مجھے پڑوسی ملک کی سرحد کی جانب بھیج دیاگیا تھا جہاں میں گرفتار ہوگیا تھا، لیکن انسان کو انگلی سے مارنے کا جو ہنر میں نے سیکھا تھا، وہ وہاں کام آگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭