اشتیاق احمد
’’یہ گھر اور یہ رقم میں تم لوگوں کو تین مہینے کے لیے دے رہا ہوں، تین مہینے بعد مکان تم سے لے لیا جائے گا اور رقم کا حساب لے لوں گا اور بس۔‘‘
حامد گیلانی کی یہ بات حد درجے عجیب تھی۔ ایسی پیش کش انھوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار سنی تھی۔ وہ حیرت زدہ انداز میں اُن کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن وہ تو اس طرح خاموش ہوچکے تھے، جیسے اب اور کچھ نہیں کہیں گے۔
بیگم نعمان کا گھرانا اِن دنوں بہت پریشان تھا۔ ایک تو انھیں کرائے کے ایک گھر کی فوری ضرورت تھی، دوسرے اُن کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ نعمان صاحب کا انتقال کے بعد تو ان کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوگئے تھے۔
بیگم نعمان نے اِن حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ اُن کے تینوں بیٹے ملازمت کی تلاش میں صبح جاتے اور شام کو ناکام لوٹ آتے۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سلائی کڑھائی میں لگ جاتیں اور اس طرح بہت ہی مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی۔ گزر بسر تو جیسے تیسے ہورہی تھی لیکن زیادہ پریشانی انھیں مالک مکان کی طرف سے تھی۔ اس نے اُن سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ان لوگوں کو اس کا مکان ایک ماہ کے اندر اندر خالی کرنا ہوگا۔
اب تینوں بیٹے ملازمت کی تلاش کو تو بھول گئے۔ مکان کی تلاش میں لگ گئے۔ کئی دن کی مسلسل بھاگ دوڑ کے بعد انھیں ایک مکان ملا لیکن اس کا کرایہ اتنا تھاکہ وہ ادا نہیں کرسکتے تھے پھر مالک مکان کی شرائط بھی بہت سخت تھیں۔ اس طرح وہ اس مکان کو نہ لے سکے۔ ان کی تلاش جاری رہی۔ تین چار مکان دیکھے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ کوئی مکان کرائے پر نہ لے سکے اور پھر مہینہ ختم ہونے میں جب تین دن رہ گئے اور ان کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی تو انھیں وہ مکان نظر آگیا۔
مکان اچھا اور صاف ستھرا سا تھا۔ دروازے پر لکھا تھا:
’’مکان خالی ہے۔‘‘
گھر آکر انھوں نے ماں کو بتایا تو انھوں نے کہا:
’’حیرت ہے، یہ نہیں لکھا کہ مکان کرائے کے لیے خالی ہے۔‘‘
’’مطلب تو یہی بنتا ہے نا، یا پھر یہ اِس لیے تو نہیں لکھا کہ مالک مکان اسے بیچنا چاہتا ہے۔‘‘
منجھلے بیٹے عرفان نے خیال ظاہر کیا۔
اس صورت میں تو یہ لکھاجانا چاہیے تھا:
’’مکان برائے فروخت خالی ہے۔‘‘ چھوٹا بیٹا سلمان مسکرایا۔
’’خیر ہمیں اس سے کیا، معلوم کرلیتے ہیں، اگر کرائے کے لیے خالی ہے تو لے لیں گے۔ برائے فروخت ہے تو نہیں لیں گے۔‘‘ رضوان نے منہ بنالیا۔
اُن سب نے سر ہلا دیے، پھر پتا نوٹ کرکے وہ شام کو اُس طرف چل پڑے۔
وہ مکان انھیں آسانی سے مل گیا۔ دستک کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر معزز آدمی نے دروازہ کھولا۔ تین نوجوانوں کو دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک عجیب سی حیرت نظر آئی۔
’’فرمائیے!‘‘ انھوں نے بااخلاق انداز میں کہا۔
’’نئی آبادی میں آپ کا ایک مکان ہے۔ اس کے دروازے پر ’خالی ہے‘ لکھا ہے۔ ہم اس کے سلسلے میں آئے ہیں۔‘‘
’’تو آپ وہ مکان لینا چاہتے ہیں؟‘‘ اس شخص نے کہا۔
’’جی ہاں، بالکل لینا چاہتے ہیں لیکن کرایے پر۔‘‘
’’اور آپ تینوں بھائی ہیں؟‘‘ انھوں نے تینوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں! ہماری ایک والدہ اور ایک بہن بھی ہیں، بس ہم پانچ افراد ہیں گھر کے۔‘‘
’’اچھی بات ہے، اندر آجائیں، بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔‘‘
وہ انھیں اپنے ڈرائنگ روم میں لے آئے اور اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد کہا:
’’ میرا نام حامد گیلانی ہے اور وہ مکان میرا ہی ہے۔ پہلے آپ بتائیں، آپ کے والد نہیں ہیں کیا؟‘‘
’’جی نہیں، انھیں فوت ہوئے دو سال ہوگئے۔ ہم تینوں بھائی ملازمت تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ والدہ اور بہن سلائی کڑھائی کرکے مشکل سے گھر کا خرچ چلا رہی ہیں۔‘‘
’’اور آپ کو دو سال سے کوئی ملازمت نہیں ملی؟‘‘
’’جی! یہی بات ہے، دراصل نہ تو ہمارے پاس سفارش ہے نہ رشوت ہے۔‘‘
’’خیر، آپ لوگوں کو میری ایک پیش کش ہے۔‘‘
’’جی، پیش کش! کیا مطلب؟‘‘ تینوں نے حیران ہوکر ایک ساتھ کہا۔
’’مطلب یہ کہ میں آپ کو اپنا مکان صرف تین ماہ کے لیے دے سکتا ہوں اور ساتھ میں کچھ رقم بھی دوں گا، تین ماہ کے بعد مکان واپس لے لوں گا البتہ رقم کا صرف حساب لوں گا کہ کیسے خرچ کیے، رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کروں گا۔‘‘
وہ حیرت زدہ رہ گئے۔
’’یہ پیش کش منظور ہے یا نہیں، بس یہ بتا دیں۔‘‘
’’ہم اپنی والدہ سے بات کیے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘
’’اچھی بات ہے، آپ بات کرلیں، مجھے آپ شام تک بتا دیجیے۔‘‘
تینوں گھر آئے تو ماں بیٹی کی سوالیہ نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ انھوں نے دونوں کو ساری بات بتائی۔ ان کا بھی مارے حیرت کے برا حال ہوگیا، کافی دیر تک سوچنے کے بعد ماں نے کہا:
’’اچھی بات ہے تین ماہ کے لیے مکان لے لوور جو رقم وہ دیں، لے آؤ، پھر دیکھیں گے۔‘‘
’’امی جان! کہیں اس میں کوئی چکر نہ ہو۔‘‘
’’ہم مجبور ہیں۔ تین ماہ کے لیے تو ایک ٹھکانا مل رہا ہے نا، تین ماہ تک ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کوئی مکان تلاش کرہی لیں گے۔‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘
شام کو تینوں نے حامد گیلانی سے ملاقات کرکے کہا:
’’ہم تیار ہیں۔‘‘
’’بہت خوب! یہ پچاس ہزار روپے ہیں۔ اس رقم کا خرچ کرنے کا آپ لوگوں کو مکمل اختیار ہے، تین ماہ بعد میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ آپ نے اس رقم کو کیسے خرچ کیا اور مکان کا معائنہ کروں گا، پھر آپ جہاں جانا چاہیں، چلے جائیے گا۔‘‘
’’مطلب یہ کہ آپ اپنا مکان خالی کرالیں گے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’لیکن آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اس سے تو یہ بہتر نہیں کہ آپ ہمیں صرف اپنا مکان تین ماہ کے لیے کرائے پر دے دیں؟‘‘
’’نہیں، یہ بہتر نہیں۔ جو میں کررہا ہوں، وہ بہتر ہے۔ آپ کو منظور ہو تو رقم اٹھا لیں اور ساتھ مکان کی چابی میز پر رکھی ہے، وہ بھی اٹھا لیں۔‘‘
انھوں نے ایک نظر حامد گیلانی پر ڈالی۔ رقم اور چابی اٹھا کر ان سے ہاتھ ملایا اور شکریہ ادا کرکے باہر نکل گئے۔
٭…٭
ٹھیک تین ماہ بعد اُن کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ چونک گئے۔ باہر نکل کر دیکھا تو حامد گیلانی کھڑے نظر آئے۔ وہ چونک اٹھے، پھر ان کے چہروں پر مسکراہٹیں پھیل گئیں۔
’’آئیے، آئیے!‘‘ وہ انھیں ڈرائنگ روم میں لے آئے۔ ادب اور احترام سے بٹھایا،پہلے ان کے سامنے چائے اور دوسری چیزیں رکھیں۔
پھر لقمان نے کہا:
’’ہم تو آج خود آپ کے پاس آنے والے تھے، ہمیں معلوم ہے آج تین ماہ پورے ہورہے ہیں۔‘‘
’’مجھے ہی آنا چاہیے تھا۔ میں اپنے مکان کو دیکھوں گا، پھر رقم کا حساب لوں گا۔‘‘
’’پہلے آپ چائے پی لیں۔‘‘
وہ مسکرا دیے۔ چائے کے بعد انھوں نے پورے گھر کا غور سے جائزہ لیا۔ اس دوران لقمان کی والدہ اور بہن اوپر چھت پر چلی گئی تھیں۔ جب وہ نچلا حصہ دیکھ چکے تو وہ دونوں نیچے آگئیں اور حامد گیلانی اوپر چلے گئے۔ اس طرح انھوں نے اوپر والا حصہ بھی دیکھا۔ پورا مکان انھیں آئینے کی طرح صاف ستھرا نظر آیا۔ مکان کہیں سے بھی معمولی سی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر نہ آیا۔ اب وہ پھر ڈرائنگ روم میں آگئے۔
’’اب میں جاننا چاہوں گا کہ پچاس ہزار روپے کی رقم کس طرح خرچ کی۔‘‘
لقمان نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی اور ان کے سامنے رکھ دی۔ وہ وہی گڈی تھی جو تین مہینے پہلے حامد گیلانی نے انھیں دی تھی۔
’’یہ کیا؟ آپ لوگوں نے پیسے خرچ نہیں کیے۔‘‘
’’جی نہیں، اس رقم کو خرچ کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں تھا۔ یہ ہماری تھی ہی نہیں،آپ کی امانت تھی لہٰذا ہم نے امانت کو جوں کا توں رکھا۔‘‘
’’بہت خوب! آپ لوگ میرے امتحان میں سو فی صد پورے اترے ہیں۔ آپ اپنی والدہ سے کہیں ڈرائنگ روم کے دروازے پر آجائیں اور میری بات سن لیں۔‘‘
رضوان نے کہا:
’’وہ پہلے ہی دروازے سے لگی کھڑی ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا، جب تین مہینے پہلے آپ لوگ مکان کے سلسلے میں میرے پاس آئے تھے تو اس وقت اچانک ہی یہ پروگرام مجھے سوجھا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس دنیا میں میری بس ایک بیٹی ہے، نہ کوئی رشتے دار ہیں، نہ دوست احباب ہیں۔ میرے پاس یہ دو مکان ہیں اور بینک میں کچھ رقم بھی ہے۔ میں اپنی بچی کے لیے پریشان رہتا تھا۔ دراصل میں دل کا مریض ہوں۔ دو مرتبہ اٹیک ہوچکا ہے۔ دل کے مریض کا کیا بھروسا۔ میں چاہتا ہوں، وہ مکان اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دوں۔ رقم دے کر اور تین مہینے کے لیے مکان دے کر میں نے پرکھ لیا ہے کہ آپ لوگ کس قدر اچھے ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی کے لیے ایسے ہی اچھے لوگوں کی تلاش تھی۔ آپ کی والدہ پسند کریں تو … ورنہ یہ کوئی زبردستی کی بات نہیں ہے۔ میں چلتا ہوں۔ آپ لوگ اپنا فیصلہ سنا دیجیے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ عین اسی وقت دروازے کی طرف سے آواز آئی:
’’رک جائیے بھائی صاحب! یہ گھر بھی آپ کا اور یہ بچے بھی آپ کے ہیں۔‘‘
اُن سب کی آنکھوں میں آنسوؤں کی قیمت اس مکان سے بھی زیادہ تھی۔
٭٭٭