Photo: FreePik
انسپکٹر لومڑ کے جاسوسی کارنامے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
بچوں کا اسلام کا ریکارڈ ساز خاص نمبر بعنوان ’’اَلْف نمبر‘‘ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا بڑا حصہ تو بچوں کا اسلام کے جانے پہچانے رنگوں سے مزین تھا، جبکہ پہلی بار تقریباً ڈیڑھ سو صفحات چھوٹے بچوں کے لیے بھی مختص کییگئے تھے جسے ’’گوشۂ نونہال‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
پہلے بڑے حصے کی طرح ’’اَلْف نمبر‘‘کا یہ ننھا سا گوشۂ نونہال بھی الحمدللہ بہت مقبول ہوا۔ نہ صرف ننھے منے قارئین بلکہ بڑوں نے بھی اِس حصے میں سجی ست رنگی تحریروں میں بہت دلچسپی لی۔ خصوصاً تصویری کہانیاں تو بہت ہی شوق اور دلچسپی سے پڑھی گئیں۔ یہ تصویری کہانیاں اس سے قبل بچوں کا اسلام میں کبھی شائع نہیں ہوئی تھیں، گویا یہ بچوں کا اسلام کے قارئین کے لیے کہانی کا ایک انوکھا اور اچھوتا روپ تھا۔
یہ تصویری کہانیاں دراصل اصطلاح میں ’’کامکس‘‘ کہلاتی ہیں۔
کامکس کہانی بیان کرنے کاایک ایسا دلچسپ طریقہ ہے جس میں ۸۰ فیصد کہانی اسکیچز کے ذریعے بیان ہوجاتی ہے، صرف ۲۰ فیصد کہانی الفاظ میں بیان ہوتی ہے۔
یوں تو کہانی کو پسند کرنے والے ہر عمر کے قارئین ہی کامکس کو پسند کرتے ہیں لیکن خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے کہانی کا یہ انداز بے حدپرکشش ہوتا ہے۔ ننھے منے اذہان تصاویر پر غور کرکے کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں کہانی کے ساتھ اس طرح جڑ جاتے ہیں گویا کہانی کی دنیا میں داخل ہوگئے ہوں۔ اس طرح نہ صرف ان کی قوتِ مشاہدہ پروان چڑھتی ہے بلکہ چیزوں کو صرف دیکھ کر انھیں بہتر پرکھنے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا، کامک میں کہانی تصویروں اور مختصر جملوں کے ذریعے بیان کی جاتی ہے، جبکہ عام کہانی صرف لفظوں پر مبنی ہوتی ہے جس میں منظرنگاری اور کرداروںکے حلیے وغیرہ سب لفظوں کے ذریعے بیان کیے جاتے ہیں۔ عام کہانی میں قاری کو پورا منظر اور جذبات اپنے تخیل سے سمجھنے پڑتے ہیں، جبکہ کامک میں تصویریں سب کچھ آسانی سے سمجھا دیتی ہیں۔ کامک میں کرداروں کے حلیے، اردگرد کا ماحول، جذبات اور واقعات کو تصویروں کے ذریعے بیان کیاجاتا ہے، صرف کرداروں کے مکالموں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شوخ رنگوں سے سجے مناظراور کردار بچوں کو متوجہ کرتے ہیں اور انھیں کرداروں کے جذبات اور واقعات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
عموماً کامک کہانیاں مہماتی، جاسوسی اور پہیلیوںپر مبنی ہوتی ہیں جس سے بچے مسائل کا حل تلاش کرنے کی مہارت بھی سیکھتے ہیں اور اس سے ان کا تخیل بھی زرخیز ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں کامک پر خصوصی توجہ دی گئی اور بہت کام ہوا لیکن اردو کا دامن کامک کے لحاظ سے ہمیشہ تنگ ہی رہا۔ اب دیکھیے ناں کہ یوں تو کامکس کی ابتدا ہزاروں سال قبل غاروں میں کندہ تصاویر سے مانی جاتی ہے، لیکن جدید کامکس کا آغاز ۱۸۴۰ ء کی دہائی میں یورپ میں ہوگیا تھا، اس کے بعد کامکس پوری دنیا کی زبانوں میں تیزی سے عام ہوئیں۔ انگریزی کے بعد عربی زبان میں تو خاص طور پر کامکس پربہت شاندار کام ہوا لیکن بچوں کے اردو ادب کی بات کریں تو ساٹھ کی دہائی میں ٹارزن کی انگریزی کامکس کہانیاں اردو میں ترجمہ ہوکر مشہور ہوئیں لیکن اس کے بعد اردو میں کامکس پر طبع زاد کام تو کیا ہوتا، ترجمہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہوا۔
الف نمبر میں اس تجربے کی کامیابی کے بعد اب ایک بار پھر خیال ہوا ہے کہ وقتاً فوقتاً اپنے ننھے منے قارئین کے لیے کامکس پیش کریں۔ اس سلسلے میں شعوری کوشش یہ ہوگی کہ جاسوسی کہانیاں زیادہ ہوں تا کہ بچوں کا اسلام میں جو جاسوسی کی تشویش ناک حد تک تیزی سے کم ہوتی مقدار ہے اسے پورا کیا جاسکے۔
تو سب سے پہلے پیش ہے: ’’انسپکٹر لومڑ کے جاسوسی کارنامے‘‘
ہمیں یقین ہے کہ آپ کو انسپکٹر لومڑ کی یہ جاسوسی کہانیاں بہت پسند آئیں گی، کیونکہ اِن کہانیوں کے جاسوس انسپکٹر لومڑ سے زیادہ دراصل آپ سب ہیں۔ جی ہاں! مجرموں کا سراغ لگانا آپ کاکام ہے۔
اور یقیناً ایک’’ لومڑ‘‘ کے مقابلے میں ہمارے قارئین اتنے’’ گھامڑ‘‘ تو ہرگز نہ ہوں گے کہ ایک معمولی سا سراغ بھی نہ لگا سکیں!
سو یہ دراصل آپ کی ذہانت کا امتحان ہے!
دیکھتے ہی آپ میں سے کون سب سے پہلے سراغ لگاتا ہے اور بدلے میں بذریعہ قرعہ اندازی شاندار انعام پاتا ہے!
والسلام
مدیر مسئول