Hot Green Tea

گرم چائے کی ٹھنڈک

Photo: FreePik

ام عمار۔ ڈیرہ اسماعیل خان

میری مما تو اس وقت چائے پیتی ہیں۔ ایسا نہ کروں کہ میں ان کے لیے خود چائے بنالوں!!؟؟

مما کو ڈاکٹر نے آرام کرنے کو کہا ہے۔ ان کے پٹھوں میں بہت درد ہے۔ کئی دن سے علاج چل رہا ہے۔ نانو آئی ہوئی تھیں ہمارے گھر۔ مگر کچھ دیر پہلے ماموں کا فون آیا کہ مہمان آرہے ہیں، آپ آجائیں تو نانو ہمیں کھانا کھلا کر چلی گئیں۔ مما کا دل نہیں چاہ رہا تھا تو انہوں نے بہت کم کھانا کھایا ہے۔ انہیں یوں بیٹھے رہنے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے بہت اداس ہوتی ہیں۔ نانو نے بھی سمجھایا بہت جلد ٹھیک ہوجائو گی، ٹینشن نہ لیا کرو۔ میں بھی اپنی مما کے لیے بہت دعائیں کررہی ہوں۔ اس وقت گھر میں میں اور مما ہی ہیں۔ ویسے تو ہم تین افراد ہیں۔ ابو امی اور ان کی لاڈلی یعنی میںزارا!

امی بتاتی ہیں میرا ایک بھائی بھی ہے حماد مگر وہ بڑی پھپھو کے پاس ہے۔ پھپھو کی شادی ہوئی، طلاق ہوگئی، ان کے تین بچے چھن گئے۔ ان سے پھر دوسری جگہ شادی ہوئی تو ان کا بیٹا فوت ہوگیا۔ وہ بہت روتی تھیں۔ ہم دونوں جڑواں بہن بھائی جب اس گھر میں آئے تو دادو نے پھپھو کی اداسی ختم کرنے کیلئے ابو کی منت کی اور میرا بھائی پھپھو کو دے دیا۔ وہ اور میں ایک بار ہی ملے جب ہم پانچ سال کے تھے۔ اب وہ دبئی میں ہے اور میں یہاں!

٭

میں نے آہستگی سے فریج کھولا، دودھ نکالا۔ وہ تو شکر ہے چولہا نیچے رکھا ہے کچن میں۔ نانو کھڑے ہوکر کام نہیں کرسکتی تھیں تو ان ہی کیلئے یہ انتظام کیا ہوا تھا۔ دیگچی دھوکر دودھ ڈالا۔ چینی اور پتی کو اچھی طرح ابالا۔ پتی کا رنگ تھوڑا گہرا ہوگیا۔

چلو! کوئی بات نہیں لیکن اب اس کو کپ میں کیسے نکالوں؟ گرم دیگچی کو کپڑے سے پکڑنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ آخر گریبر کو ڈھونڈا اور اس کی مدد سے چائے کپ میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئی۔

میرے بیگ میں بسکٹ بھی تو ہیں!! اچانک یاد آیا۔ آج میں نے اسکول میں جیب خرچ سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بسکٹ گھر کے لیے ہی خریدے تھے۔ نانو کو تو میں تنگ نہیں کرسکتی تھی۔ مما تو مجھے شام میں کچھ نہ کچھ بناکر دے دیا کرتی تھیں۔

میں بسکٹ سلیقے سے پلیٹ میں سجاکر مما کے کمرے میں دھیرے سے آئی تو وہ جاگ رہی تھی۔ حیرانی سے دیکھا اور بولیں:

’’تم کہاں غائب تھیں زارا!!؟ میں سمجھی پڑھ رہی ہو۔‘‘

’’مما ! دیکھیں چائے اپنے ہاتھوں سے بناکر لائی ہوں آپ کے لیے۔ آپ کو طلب ہورہی تھیں ناں!‘‘

مما نے چہرہ اثابت میں ہلایا۔ وہاں خوشی کے آثار نمایاں تھے۔
’’ارے واہ میری زارا بڑی ہوگئی ہے!‘‘ انہوں نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر ایک گھونٹ بھرتے ہوئے بولیں:

’’پہلی بار کی چائے واقعی مزے کی ہے!‘‘
٭

’’تم چائے اچھی بنالیتی ہو۔ پہلی بار کب بنائی تھی ویسے؟‘‘
عدنان نے زارا سے پوچھا تھا۔ تب ہی زارا کے ذہن کی اسکرین پر وہ پہلی بار کی چائے کا منظر ابھرتا چلا گیا۔ اس دن گرما گرم چائے کے ذریعے ماں کو خوش کرنے کی خوشی سے جو دل میں ٹھنڈ پڑی تھی، وہ آج بھی محسوس ہورہی تھی۔

میری کہانی کے کردار

بنت ملک اشرف۔ گڑھا موڑ

میں پچھلے چار دنوںسے کوئی تحریر لکھنے کا سوچ رہی تھی، لیکن دماغ جیسے میرا ساتھ دینے سے انکاری ہو اور ناراض ہوکر دور جا بیٹھا ہو۔ لاکھ منتیں کیں کہ کچھ تو ساتھ دو لیکن ہر بار کی طرح اب بھی جواب خاموشی ہی ملا۔ اچانک خیال آیا کہ میں آخر لکھنا کیا چاہتی ہوں؟

ہاں! میں ایک ایسی کہانی لکھنا چاہتی ہوں جس کی شروعات محبت سے ہوگی۔ میری کہانی کے کردار لڑائی جھگڑا بھی کریں گے، ناراض بھی ہوں گے لیکن اپنی انا کو مٹا کر سب مل جل کر رہیں گے۔

میرے کردار کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، دھوکا نہیں دیں گے، کسی سے بغض و حسد نہیں کریں گے، اگر وہ ایسا کریں بھی تو فوراً معافی مانگ لیں گے، ان کے ضمیر کی ملامت ان کو دوبارہ ایسا نہیں کرنے دے گی۔

میری کہانی کے کرداروں پر مشکلات بھی آئیں گی، تکلیفیں بھی آئیں گی، لیکن وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ اگر کبھی مشکلات سے ٹوٹ کر گر بھی جائیں گے تو بغیر سہارے کے ہمت کرکے خود ہی کھڑے ہوجائیں۔ میری کہانی کے کرداروں سے دنیا جانے گی کہ صبر کیا جاتا ہے، تکلیفوں کو کیسے سہا جاتا ہے، درد کے باوجود کیسے مسکرایا جاتا ہے، دنیا والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے، اپنوں کی بے رخی کے باوجود ان سے کیسے محبت سے ملا جاتا ہے؟ میری کہانی کے کردار کبھی اپنوں سے ایسی جنگ نہیں کریں گے جس سے وہ جنگ تو جیت جائیں لیکن اپنوںکو ہار جائیں۔ وہ رشتوں کا مان رکھنا سکھائیں گے…!!! لیکن… لیکن…

میں اختتام کیساچاہتی ہوں؟ میں نے خود سے سوال کیا؟

ہاں میں اپنی ہر کہانی کا ایسا اختتام کروں گی کہ میرا قاری زیادہ دکھی نہ ہو، زندگی میں پہلے ہی بہت غم ہیں، کہانیوں میں بھی یہی دکھ اور پریشانیاں ہوں تو بے چارے قارئین کہاں جائیں۔ اب آپ ہی بتائیں!