Office Graphics

یہ تھی زندگی

Photo : FreePik

خدیجہ ارشاد۔ دارالسلام ٹوبہ

صبح سے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش سے موسم مزید خوشگوار ہوگیا تھا۔ وہ برآمدے میں ستون سے ٹیک لگائے سوچوں میں گم تھی۔ ’’تم بھی ہتھیلی پھیلا کر ان بوندوں کے نرم تاثر کو محسوس تو کرو۔‘‘ کسی نے اس کا ہاتھ گرفت میں لے کر کہا۔ اس نے اضطراب کے عالم میں ہتھیلی پھیلادی اور چند قطرے جذب کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ رکھ کر سسک پڑی۔

٭

’’اگر تمہارا میڈیکل میں داخلہ نہ ہوا تو تم کیا کروگی؟‘‘ زیب النساء نے زرناب کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا ۔

’’شادی‘‘ جھٹ جواب آیا۔

زیبی کا منہ مارے حیرت سے کھلا رہ گیا۔ وہ تو میں مرجائوں گی میںپڑھائی چھوڑدوںگی جیسے جواب کی منتظر تھی۔

’’زینی‘‘ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔

’’جب جانتی ہو ڈاکٹر بننا میرا خواب ہے تو اتنی بدشگونی والی باتیں کیوںکرتی ہو۔ بھئی اگلے سال پھر انٹری ٹیسٹ دوں گی۔ ‘‘زینی نے فیصلہ سنایا۔

’’اللہ تمہیں اسی سال کامیاب کردے۔‘‘ زیبی دعا دیتے ہوئے بولی۔

کلاس سے نکل کر لائبریری پہنچتے پہنچتے بارش کافی تیز ہوچکی تھی۔ زیب النساء کتابوں کو بھیگنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے تقریباً بھاگتے ہوئے لائبریری میں پہنچی تو زرناب بے زاری سے بیٹھی اسی کی منتظر تھی۔
’’آؤ موسم انجوائے کریں۔‘‘ زیبی نے بیگ رکھتے ہوئے کہا۔

’’میں یہیں ٹھیک ہوں۔ بیٹھو تم بھی۔‘‘ زینی نے اس سے کہا جبکہ زیبی سنی ان سنی کرتے ہوئے لان میں آکر بارش میں بھیگنے لگی۔
٭

زیب النساء اور زرناب بہت گہری دوست تھیں۔ دونوں کا بچپن بھی ایک ساتھ کھیلتے ہوئے گزرا۔ گھر ایک گلی میں ہونے کی وجہ سے وہ اسکول ٹائم کے علاوہ بھی ایک دوسرے کے گھر گھسی رہتی تھیں۔ انہیں لڑتے بہت کم دیکھا گیا۔ زرناب والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ والد کی خواہش پر وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ اس کے والد بھی ڈاکٹر تھے۔ اس لیے میٹرک کے بعد زینی نے F.Sc جبکہ زیبی نے I.C.S میں داخلہ لیا۔ یہ ان کی زندگی کا دوسرا بڑا اختلاف تھا۔ پہلا اختلاف کچھ یوں تھا کہ زیبی کو تیز برستی بارش بہت پسند تھی۔ وہ تمام اہم کام چھوڑ کر بارش میں بھیگتی جبکہ زرناب کو ہلکی ہلکی رم جھم اور بوندا باندی اچھی لگتی تھی۔

چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیبی نوٹس بنانے میں مصروف تھی جب اچانک ہی زینی آدھمکی۔

’’آؤ مارکیٹ چلتے ہیں مجھے شاپنگ کرنی ہے۔‘‘ آتے ہی شور مچایا۔

’’زینی! میں نے نوٹس بنانے ہیں، تمہیں پتا ہے مس دانیہ کتنی سخت ہیں۔‘‘ زیبی نے کمزور احتجاج کیا۔

’’صرف ایک گھنٹے کی تو بات ہے۔ میں تو زیادہ دیر نہیں لگاؤں گی۔ تم آکر بنالینا۔ ویسے بھی تم اتنی لائق فائق ہو یوں بناسکتی ہو۔‘‘ وہ اس کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔

’’یار ماموںکی شادی ہے تمہیں پتا ہے میں اکیلی شاپنگ نہیں کرسکتی۔ اب نخرے مت کرو۔‘‘ زیبی کو خاموش دیکھ کر وہ پھر اسٹارٹ ہوئی۔ ’’پھر بھی مجھے نہیں جانا۔‘‘ وہ رخ پھیرتے ہوئے بولی۔
’’انوار فوڈ پوائنٹ سے تمہاری فروٹ چاٹ پکی!‘‘ اس نے زیبی کی کمزور رگ پر ہاتھ رکھا۔

’’چلو ٹھیک ہے چلتی ہوں۔‘‘ زیبی مسکراتے ہوئے اٹھی۔
’’اف توبہ لوگ کتنے مطلب پرست ہیں۔ دوستی تک کو بھول جاتے ہیں اکیلی نہ جانے کی وجہ سے تمہیں لینے آئی وگرنہ تمہیں تو…‘‘۔ چینج کرنے کے لیے جاتی ہوئی زیبی اس کی بڑبڑاہٹ سے محظوظ ہورہی تھی۔

اگلے ہی دن کالج کینٹین میں دونوں سموسوں سے انصاف کررہی تھیں۔ ’’تمہیں نوٹس مل گئے۔‘‘ زیبی نے پوچھا۔ ’’ہاں مل گئے ہیں۔ وہ بے حد اہم ہیں ایسے ہی کہیں رکھ کر بھول گئی تھی۔‘‘ زینی چٹنی ڈالتے ہوئے بولی۔

’’تم نے کل رات گیارہ بجے میسج کیا تھا۔ جاگ رہی تھی؟‘‘ زیبی اچانک یاد آنے پر بولی۔

’’ہاں ایک بجے سوئی ہوں۔‘‘ وہ چہرے پر مسکینیت لاتے ہوئے بولی۔

’’بس ابھی محنت کرنا پڑے گی ایک بار انٹری ٹیسٹ کلیئر ہوجائے پھر تو موجیں ہی موجیں ہیں۔‘‘ جواب دیتے ہوئے وہ ایک پلیٹ اور آرڈر دے چکی تھی۔ زیبی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

’’آج ناشتہ نہیں کیا۔‘‘ وہ اس کی حیرت بھانپ کر بولی۔

’’اوہ میں تو اپنا والٹ گھر بھول آئی ہوں۔ تم ذرا پے منٹ کرنا میری بھی۔‘‘ سموسے کھانے کے بعد وہ بیگ کھنگالتے ہوئے بولی۔ زیبی نے اس کی پے منٹ بھی کردی۔ کینٹین سے باہر نکلتے ہوئے زینی کے چہرے پر پھیلی معنی خیز مسکراہٹ کو دیکھ کر وہ سمجھ چکی تھی کہ کل کا حساب برابر ہوچکا ہے۔

وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش جاری تھی۔ کالج برآمدے میں نوٹس کے رٹے لگاتی زیبی وقتاً فوقتاً ایک نظر زینی پر ڈالتی جو لان میں ادھر سے ادھر چکر لگاتے ہوئے موسم انجوائے کررہی تھی۔ کبھی وہ ہتھیلی پھیلا کر بارش کے قطروں کو جذب کرتی۔

’’مجھے تو ایسے موسم سے چڑ ہے، بس کھل کر بارش ہونی چاہیے یہ ہلکی ہلکی
بوندا باندی مجھے نہیں پسند۔ سارا دن یونہی بے کار گزر جاتا ہے۔‘‘ زیبی نے اونچی آواز میں کہا۔

’’ارے چندا یہی تو فطرت کی خوبصورتی ہے دیکھو یہ بارش نہ جل تھل کرتی ہے نہ تشنہ رکھتی ہے بس ہولے ہولے من کو بھگوتی ہے جیسے کوئی کہانی سناتی ہے۔

بارش کی بنیاد میں جانے کس کے آنسو ہیں
صدیوں پہلے شاید کوئی صدیوں بیٹھ کے رویا ہے

کل زرناب کا انٹری ٹیسٹ تھا اس کی خیریت پوچھنے کے لیے فون کیا تو اس کی امی نے اٹھایا۔ ’’آنٹی زینی سے بات کروادیں۔‘‘
’’بیٹی وہ مسلسل تین گھنٹے سے پڑھ رہی تھی، ابھی زبردستی آدھا گھنٹہ آرام کرنے کا کہہ کر آئی ہوں۔‘‘

’’چلیے ٹھیک میں پھر کال کرلوں گی۔‘‘ یااللہ! اسے کامیاب کرنا ریسیور رکھتے ہوئے وہ دعا کررہی تھی۔
٭

اگلے دن صبح ہی اس کی کال آئی۔
’’یار دیکھو پچھلی تمام رنجشیں اور اختلافات بھلا کر مجھے معاف کردو اور میرے لیے خلوص دل سے دعا کرنا۔‘‘ وہ عاجزی لہجے میں سمو کر بولی۔

زیبی بے اختیار ہنس دی ’’میری ساری دعائیں تمہارے لیے ہیں۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے گا ان شاء اللہ۔‘‘

’’مصلیٰ سے مت اٹھنا تین گھنٹے۔‘‘ فون بند کرتے ہوئے اس نے آخری ہدایت کی اور زیبی واقعی وضو بنا کر صلوٰۃ الحاجات پڑھ کر تین گھنٹے اس کے لیے دعائیں مانگتی رہی۔
٭

پھر وہ واقعی انٹری ٹیسٹ کلیئر کرگئی۔ اس کا میڈیکل میں ایڈمشن ہوچکا تھا، وہ بے حد خوش تھی۔
’’ زیبی! آج میں بے حد خوش ہوں، تمہیں پتا ہے ابو خوشی سے رو پڑے تھے، ان کے سارے کولیگز کے بچوں میں سے صرف میںسلیکٹ ہوئی ہوں۔‘‘ وہ زیبی کے گلے لگی بول رہی تھی، اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

’’اللہ نظرِ بد سے بچائے۔‘‘ زیبی نے بے اختیار اس کا ماتھا چوما۔ ’’ڈاکٹر زرناب عظیم‘‘ زینی نے دھیرے سے کہا اور دونوںکھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
٭

اس نے اپنے سارے خاندان کی دعوت کی تھی جس کی تیاریوں میں وہ مصروف تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اور زیبی ایک جیسا سوٹ پہنیں اسی لیے وہ مارکیٹ جانے کے لیے اسے ساتھ لینے آئی مگر زیبی کو بخار تھا۔

’’تم اپنی پسند کا لے لو مجھے بھی اچھا لگے گا۔‘‘ وہ اسے ٹالتے ہوئے بولی۔ ’’چلو ٹھیک ہے‘‘ خلافِ توقع وہ جلدی مان گئی۔
ابھی اسے گئے آدھا گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ زیبی کے ابو پریشان سے گھر میں داخل ہوئے۔ ’’زیبی تمہاری دوست کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، حالت سیریس ہے۔ جلدی چلو۔‘‘زیبی دہل گئی۔ ’’یااللہ اسے کچھ نہ ہو، میرے اللہ رحم کرنا۔‘‘

ابو اسے زینی کے گھر لے گئے، باہر دریاں بچھا کر مرد بیٹھ رہے تھے۔ زیبی کسی انجان خدشے کے تحت لرز گئی۔ اندر داخل ہوئی تو لاؤنج کے درمیان میں چارپائی پڑی تھی، اوپر دی گئی چادر بھی خون سے لت پت تھی۔ زینی کی امی تقریباً بے ہوش تھی۔
’’ابو نے کہا تھا ایکسیڈنٹ تو ہاسپٹل… وہ مارکیٹ… ایک جیسے سوٹ… انٹری ٹیسٹ کلیئر ہوا…‘‘ اس کے حواس کام نہیں کررہے تھے وہ بے جان ہوکر گر پڑی۔ اسے ہوش آیا تو زینی کو غسل دیا جاچکا تھا۔ وہ اس کی چارپائی کے نزدیک گئی۔ اس نے گالوں پر آنسوئوں کو پھسلتے محسوس کیا پھر وہ زار وقطار رونے لگی۔ وہ اس کے ہاتھ تھامنے لگی جیسے گمان ہو کہ وہ ابھی اٹھ جائے گی اور کہے گی پگلی میں تو مذاق کررہی تھی۔ چلو آؤ تمہیں شاپنگ دکھائوں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ پھٹی آنکھوں سے کسی معجزے کی منتظر تھی۔ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے تو یہ میرے پاس تھی۔

جب مرد چار پائی اٹھانے اندر آئے تو وہ اپنی ساری طاقت سے چارپائی کو یوں زور سے کڑ کر بیٹھ گئی جیسے واقعی اپنی زینی کو نہیں جانے دے گی اور جیسے ہی چارپائی اٹھی تو زینی کے گھر میںشور مچ گیا۔ وہ جاچکی تھی۔