House Graphics

رشتے نہ توڑو

رشتے نہ توڑو

علی محمد خان انصاری۔ مظفر گڑھ
ہمارے خاندان میں ایک دانش مند خاتون کہا کرتی تھیں کہ دنیا کا کوئی سا بھی نقصان ہوجائے ، آپس میں رشتہ داری والا تعلق کبھی توڑو۔ یعنی سو جائے سنگت نہ جائے۔ انہوں نے ایک دفعہ اپنے بھائی سے اپنئ بیٹے کیلئے بیٹی کا رشتہ مانگا۔ انہوں نے رضامندی بھی دے دی لیکن اسی دوران ان کے پاس کسی امیر کبیر گھر کا رشتہ آگیا، وہ جھٹ سے اپنی بات سے مکر گئے او ربہن کے بجائے کہیں اور رشتہ کردیا۔ ان کی بیٹیوں کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگیں: امی! اپنے بھائی سے بول چال بند کردیں۔ وہ بولیں: نہیں! ان کی مرضی انہوں نے رشتہ نہیں دیا مگر ہمارا بہن بھائی والا رشتہ تو ہے ناں، وہ ہم کیوں توڑیں۔ کوئی تم سے ادھار لے کر مکر گیا یا کسی نے تمہاری زمین پر قبضہ کرلیا، یہ راستہ موجود ہے کہ تم اپنا حق لو مگر اگر رشتہ داری جاتی نظر آئے تو رقم کو جانے دو، زمین کو بھول جائو لیکن اپنی رشتہ داری کو سلامت رکھو۔ اللہ تمہارے نیک جذبے کی بدولت تمہیں تمہارے نقصان کا بہترین نعم البدل دے گا۔ کسی سے شکوہ شکایات ہو، ان کے گھر آنا جانا ملنا ملانا ترک نہ کرو، یعنی رشتوں کو ہر صورت برقرار رکھو۔

ذرا ساکام
عائشہ خان

’’اٹھ بھی جائو ! نکھٹو کہیں کی، ہر پل سونے کے لیے تیار ہے۔‘‘ ابھی قیلولے کی نیت سے ہم نے بستر سے کمر لگائی ہی تھی کہ امی ہمارے سرہانے کھڑی ہوکر ہماری مدح سرائی کرنے لگیں۔

’’اللہ! امی اب کیا کام رہ گیا ہے؟‘‘ سستی کے مارے ہم نے موندی آنکھوں سے پوچھا۔
’’ارے اٹھو اورذرا کاشف کے قمیص کی جیب ادھڑ گئی ہے وہ سی دو۔ اور تو کسی کام کی نہیں۔‘‘ حکم صادر کرنے کے بعد امی ہمیں طعنہ دینا نہ بھولیں ۔ ہم سلائی سیکھنے والے دن کو کوستے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب سے ہم نے سلائی کرنا سیکھی یقین جانیں ایک دن چین سے نہ بیٹھے۔ بس یوں سمجھیں سلائی مشین اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

’’ واہ! ہماری عینی کپڑے سلائی کرتی ہے بتایا تک نہیں ذرا ہم بھی تو دیکھیں بٹیا کی سلائی۔ بھیجوں گی ایک سوٹ اپنی سعدیہ کا، ٹھیک ہے۔‘‘بڑے دلار سے چچی کہہ کر ہمیں تڑپا جاتیں۔ پھوپھو نسرین اپنا جوڑا شام تک سی دینے کا کہتیں تو ساتھ میں لتاڑنا نہ بھولتیں ۔ پڑوسن خالہ اکثر اپنی نواسی کاریڈی میڈ فراک جوڑنے کا دیا کرتیں۔ غرض پھوپھو کی اکلوتی بہو کے آنے والے ننھے کے لیے ان گنت شلواریں سینا ہوں یا چچی کی نواسی کے لیے نت نئے اسکارف۔ باجی کے ادھڑ ے ہوئے پائنچے یا ننھی کے آئے روزپھٹنے والے کپڑے ، بسیار خو آپا کے دن بدن تنگ ہوتے کپڑوں کو کھلا کر نا ہو یا پھر پڑوسن خالہ کی پوری فیملی کے پھٹے کپڑوں پر سلائی کرنا ہو، ہماری خدمات بغیر کہے حاضر ہوتیں کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا ۔ اگرذرا سی دل کی بات منہ پر آتی اور ہم دبے لفظوں میں معذرت کی جرات کرلیتے تو فوراً سے بے شمار باتیں سننے کو ملتیں۔

’’ہائے روز روز تھوڑی کہتی ہوں کام چور کہیں کی!‘‘ آپا گھرکتی ۔

’’تھک تھوڑی جائو گی۔ سلا سلایا کپڑا ہے بس ادھڑی جگہ پر مشین پھیرنی ہے۔ اس پر تمہیں لرزہ طاری ہوگیا ہے ذرا جو تہذیب ہو۔ ‘‘ باجی سیما خفا ہوئیں۔

’’ اے ہے لڑکی اب تیرا کیا جاتا ہے سیتی تومشین ہے چھالے تیرے ہاتھوں میں پڑنے لگے ہیں اللہ جانے کس پر گئی ہے کام چور، قینچی گھس رہی ہے بی بی کی۔‘‘ ہاتھ نچا نچا کر اپنی جگہ سے اٹھتی بیٹھتی پڑوسن خالہ، کئی گھنٹوں کی پرزور تقریر کرنے کے بعد کپڑوں کی گٹھڑی میرے سامنے پٹختیں، پھر ذرا نرم لہجہ بنا کر ہماری ٹھوڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتیں۔ ’’گودوں میں پلے میرے تو دھی رانی! ذرا سا تو کام کہا ہے۔ ‘‘ اور ہم نم آنکھوں کے ساتھ سر ہلانے پر خود کو مجبور پاتے۔

کل تایا ابو کہہ رہے تھے بیٹا اس قسم کی ایک ٹوپی تو سی کردو نمونہ یہ ہے۔ آسان ہی ہے بس ذرا محنت کی ضرورت ہے اور ہم بیٹھتا دل سنبھالتے رہ گئے۔

ہائے اللہ ربی آخر ہم نے کپڑے سینا شروع ہی کیوں کیے تھے۔ مزے ہیں آپا والوں کے جن کو اتنی خبر نہیں کہ مشین کا پہیہ آگے کی جانب چلتا ہے یا پیچھے کی جانب، جن کو اگر کہیں کہ پھر کی سے دھاگا کھینچ کر مشین کی سوئی میں جب تک نہ ڈالیں کپڑا نہیں سلتا تو باآسانی مان جائیں، کہیں لاعلمی میں بھی خیر ہے۔ جیسے باجی کو سکھا دیں کہ قمیص کے مونڈھے دامن سے کٹتے ہیں اور سلائی میں اوپر آجاتے ہیں تو نہ صرف یقین کرلیں بلکہ ہر جگہ یہی کہتی پھریں۔ غرض ان کی تو بچت ہے۔ پھنس تو ہم بے چارے گئے۔ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے۔ ایک بات اور اگر ہم بنا کچھ کہے آرڈر مان لیں تب بھی وہ کہتیں نہ رہیں گی۔’’ دیکھو عینی یہ دھاگا کپڑے سے میچ نہیں ہو رہا اور تم نے اسی سے سی ڈالا۔‘‘ آپا منہ بناکر اعتراض کرتی تو کبھی باجی نکتہ اٹھاتیں ۔’’ارے غور کرو یہ سلائی ٹیڑھی لگ رہی ہے۔ ذرا پھر سے کوشش کرو یار صحیح سے کام کیا کرو یار عینی بس سر سے ذمہ اتارتی ہو۔‘‘

ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ چچی مسکرا تی ہوئی نمو دار ہوئیں۔’’ عینی دیکھو میرے برقعے کو بھی پتا لگ گیا ہے کہ تم سلائی کرتی ہو اس نے بھی عین جاتے سمے پھٹنا تھا۔ ابھی تمہاری طرف آرہی تھی کہ دروازے سے ہک میں آکر پھنس گیا اور پھٹ چلا۔ جلدی کرو چھوڑو سب کام اورذرا سی سلائی کردو ۔‘‘ یہاں وہ کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئیں اورہم نے جی جی کرتے ہوئے بھاگ کر ان کے ہاتھوں سے برقع تھاما حالاں کہ اندر سے دل ایک سیکنڈ میں ہزار بار’نہ‘ کہہ رہا تھا۔ چچی کو گئے ہوئے بمشکل ابھی پانچ منٹ ہوئے تھے کہ ہمیں پڑوسن خالہ کی مع ان کے ہاتھ میں پکڑے شاپر کی زیارت کرنا پڑی۔ چھوٹتے ہی وہ بولیں:’’ عینی ذرا میری نواسی کے قمیص کے دامن پر دو تین ذرا سے پھول کاڑھ دو۔ ارے ذرا سی توقمیص ہے۔ پھول کاڑ ھنے میں ذرا بتلائو کتنی دیر لگے گی؟‘‘ وہ سانس لیتے ہوئے بولی تو ہم فوراً اسے کہہ اٹھے :’’خالہ کڑھائی بنانی تو ہمیں نہیں آتی، معذرت۔ـ‘‘

’’آں ہاں تو پھر سیکھ لو ناں !‘‘اپنی دانست میں انہوں نے مفید حل بتا یا تھا مگر ہم نے فوراً سے اپنا درد سے پھٹتا سر دائیں بائیں شدت سے گھمایا۔ آخر بڑی دقت کے بعد وہ ہماری بات کا یقین کرکے واپسی کے لیے اٹھیں اور ہم نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔

’’اللہ تیرا شکر ہے ہم موزے بستے اور جوتے نہیں سیتے ورنہ…‘‘ جھر جھری لیتے ہوئے ہم نے فوراً خیال جھٹک دیا۔

دوسروں کے کام آنا بے شک ثواب کا کام ہے لیکن اپنی مدد آپ کرنا اور ذرا سا کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دینا بھی سنت میں شامل ہے۔