راحیلہ ذاکر۔ کراچی
آج کل مائوںکا مسئلہ بچوں کی تعلیم و تربیت ہے اور کیوں نہ ہو اللہ پاک نے عورت کو ایک نسل کی پرورش و تربیت کی ذمہ داری سونپی ہے اور اس سلسلے میںہر ماں ہلکان نظر آتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہَ عِندَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ (سورۃ الحدید)
’’بے شک تمہارا مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘‘
لہٰذا اولاد کی پرورش اور بہترین تربیت پر جہاں آخرت کی کامیابی کا وعدہ ہے، وہیں دوسری طرف اس سے لاپروائی کرنے پر اللہ رب العزت کےہاں پکڑ بھی ہے۔
چونکہ اسکول و مدارس میں داخلےجاری ہیں اس حوالے میں میں تعلیم کے بارے میں چند مشاہدات کے پیش نظر چند باتیںاپنی بہنوں کے گوشِ گوار کرنا چاہوں گی۔ اسکول کے حوالے سے میری گزارش ہے کہ آپ اپنے بچے کا داخلہ کرواتے ہوئے صرف نام پر قربان نہ ہوں، بلکہ جس جگہ آپ داخلہ کروانا چاہیںپہلے جاکر وہاں کا ماحول اور معلمات کو دیکھیں، بات چیت کریں۔ اس اسکول کا کورس اور پچھلی کلاس کی تعلیم کا معیار چیک کریں ورنہ ایسی صورتِ حال بھی سامنے آئی ہے کہ والدین اسکول میں لگا کر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر تعلیمی معیار کم ہونے کی وجہ سے اگر بچے کو بعد میں کسی اور جگہ داخلہ دلوانا چاہیں تو مطلوبہ درجے میں بچے کا داخلہ نہیں ہوپاتا۔
پھر اگر بچہ اسکول میں صحیح طرح نہ پڑھ پائے تو والدہ کے پاس ٹیوشن کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ پانچ سو، ہزار روپے دے کر بچے کو چند گھنٹوں کے لیے ٹیوشن بھیج دیا جاتا ہے جس کے بعد والدہ گھر میں مطمئن و پرسکون رہتی ہیں اور ٹیوشن والی ٹیچر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے اور مار پیٹ کرکے کاپیاں بھروا کر یاد کرواتی ہیں۔ (ہر ٹیوشن کا یہ حال نہیں مگر اکثریت کی بات کر رہی ہوں)۔
میری بہنو! آج میں اپنے تجربے کی بنا پر ٹیوشن کا نعم البدل بتانا چاہتی ہوں۔ آپ کے بچے آپ کے گلشن کے نازک پھول ہیں۔ ا نہیں جتنی محبت و شفقت سے آپ سنبھالیں گے کوئی دوسرا نہیں سنبھال سکتا۔ جتنا آپ اپنے بچے کے مزاج کو سمجھیں گی کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔
گھر میں ٹیوشن کیسے پڑھائیں؟
آپ اپنے بچے کے لیے خود کو دو گھنٹے فارغ کریں اور پھر بچے کو لے کر بیٹھیں اور اسے کہیں کہ جتنی جلدی کام اور یاد کرلوگے اتنا ہی جلد چھٹی ہوجائے گی۔ اس سے وہ کام کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ پھر جو ڈائری میں ہوم ورک ملا ہو وہ کروائیں اور پھر جو یاد کرنے کو ملا ہو اسے اچھی طرح سمجھادیں۔ اس کے بعد یاد کرنے کو کہیں۔ جب اسے یاد ہوجائے تو سن لیں۔ اگر غلطی آئے تو دوبارہ یاد کروائیں اور جب تک بالکل پکا یاد نہ ہو لکھوا کر جائزہ نہ لیں۔ پھر اگر ٹیسٹ میں بھی غلطی آجائے ایک دفعہ اور لکھوالیں۔ درمیان میں اگر بچہ تھک جائے تو تھوڑا آرام دیں۔ پانی پینے دیں اور پھر پڑھنے بٹھائیں۔
نرسری اور پریپ کے بچوںکو پڑھانے کا طریقہ:
جو بچے چھوٹے ہیں انہیں اسکول میں جو کام کروایا جائے آپ روز کے روز یاد کرواتی جائیں۔ اسکول کے کام کے علاوہ گھر کے کام کی کاپیاں بھی بنائیں جس میں روز وہ کام کروائیں جو اسکول کی کاپیوںمیں ٹیچر نے کروایا ہو اور اگر کوئی کام ایسا ہو جو بچے کو یاد نہ ہو رہا ہو۔ مثلاً الفاظ ضد، مذکر و مونث، پہاڑے، مضمون یا کوئی نظم وغیرہ ، اسے ایک صفحہ پر بڑا اور واضح الفاظ میں لکھ کر ایسی جگہ چسپاں کردیں جہاں آپ کا اور بچے کا آنا جانا رہتا ہو۔ پھر دن میں تین چار پر چلتے پھرتے آپ انگلی رکھ کر بچے کو پڑھادیں۔ اس طرح بچے کو یاد ہوجائے گا اور بار بار لکھا ہوا دیکھ کر بچے کو ذہن نشین ہوجائے گا جس کی وجہ سے لکھنے میں آسانی ہوگی۔
اس کے علاوہ جو کتب یا دکرنے کے لیے ہوں ان کے صفحات متعین کرلیں کہ روز اتنے صفحات سننے ہیں اور جو آگے یاد کرنے ہوں وہ سبق سننے کے بعد ایک دفعہ پڑھادیں۔ اس سے اگلا سبق یاد کرنا آسان ہوگا۔
سب سے آخری بات… بہنو! اولاد والدین کی پہلی ذمہ داری ہے اور عورت کی تربیت کا عکس بھی۔ چھوٹے بچے کو گھر سے نکال کر دوسرے ماحول میں بھیجنے سے بچے اچھی بری ہر طرح کی بات سیکھتے ہیں۔ اس لیے جس قدر ہوسکے معصوم بچوں کو اپنی تربیت و نگاہ میں رکھیں۔ البتہ جب ضرورت ہو اور بچے تھوڑے بڑے ہوجائیں تو ٹیوشن بھیجنے میں مضائقہ بھی نہیں۔
٭٭٭