Us Din Kia Howa Tha

اس دن کیا ہوا تھا؟

اسماء اشرف منہاس

بڑے ابا بڑی عجلت میں گھر سے باہر نکلے تھے۔ انھوں نے صرف اتنا بتایا تھا کہ احمد کے اسکول سے فون آیا ہے اس کی طبیعت خراب ہے۔

جبکہ انھیں علم ہوا تھا کہ احمداسپتال میں داخل ہے مگر وہ جب تک اصل صورت حال کا درست علم نہ ہوتا گھر والوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ احمد کے ابو بھی ملک سے باہر تھے تو گھر میں بڑے اب وہی تھے۔
وہ جب اسپتال پہنچے تو احمد کے پرنسپل صاحب بھی وہیں موجود تھے۔

ان سے پتا چلا کہ اس کی کلاس کے کسی بچے نے اس کی آنکھ کے نیچے پین کی نب اس بری طرح سے ماری تھی کہ احمد کی آنکھ ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔
احمد ابھی بے ہوش تھا۔ اس لیے ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ نقصان کس حد تک ہوا تھا۔ بڑے ابا اس کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوگئے تھے۔ اگر واقعی اس کی آنکھ ضائع ہوگئی تو……!؟ یہ اندیشہ ان کا دل ہولائے دے رہا تھا۔ وہ مسلسل دل ہی دل میں رب تعالیٰ سے التجا کررہے تھے کہ احمد کی آنکھ بچ جائے، اسے کچھ نہیں ہو۔

”ہمارے اسکول میں تین مہینے پہلے ایک نیا بچہ داخل ہوا ہے۔“
پرنسپل صاحب بڑے ابا کے پاس بیٹھے بتا رہے تھے۔

پڑھائی میں بھی کمزور ہے اور کلاس میں کسی کے ساتھ بھی اس کی دوستی نہیں، بس الگ تھلگ بیٹھا رہتا ہے۔ احمد بہت اچھا بچہ ہے مگر نجانے کیا ہوا کہ اس نے اچانک پین کی نب احمد کی آنکھ میں مار دی۔ آپ فکر نہ کریں، اسے اب ہم اسکول سے نکال دیں گے۔“
”نہیں آپ ایسا نہ کریں۔“ بڑے ابا جلدی سے بولے۔

”مگر کیوں؟“ پرنسپل صاحب حیران ہوئے۔ ”اس بچے نے بہت زیادتی کی ہے، اسے نکال دینا ہی بہتر رہے گا۔“
”وہ بات تو ٹھیک ہے مگر ابھی ہمیں اصل بات کا تو علم ہی نہیں۔ میرا پوتا بے ہوش ہے۔ جب تک وہ ہوش میں نہیں آتا، بیان نہیں دیتا، یہ یک طرفہ کارروائی ہوگی۔“

ٹھیک ہے جیسے آپ مناسب سمجھیں۔“
احمد ہنوز بے ہوش تھا۔

اگلی صبح بڑے ابا اس بچے کے گھر جا پہنچے تھے، جس نے احمد کو مارا تھا۔ اس کا نام سلیمان تھا۔ اس کے ماں باپ بے حد شرمندہ تھے اور بار بار معافی مانگ رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان کا بیٹا ایک بالکل بے ضرر بچہ ہے۔ خاموش طبع اور سنجیدہ مگر نجانے اس سے یہ غلطی کیسے ہوگئی!
بڑے ابا نے سلیمان سے بہت پوچھا کہ اسے احمد سے کیا شکایت تھی، مگر وہ کچھ نہیں بولتا تھا، بس وہ بے حد ڈرا ہوا تھا۔

اللہ اللہ کرکے دوسرے دن احمد کو ہوش آگیا تھا اور صد شکر اس کی آنکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔
دو تین دن بعد وہ گھر آگیا تھا۔

اور پھر اس دن اس کی طبیعت بہتر دیکھ کر بڑے ابا نے اس سے وہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جس کے جواب کا وہ بہت بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔
”بیٹا! اِس بچے سے آپ کی کوئی لڑائی ہوئی تھی کیا؟ آخراس نے آپ کو کیوں مارا؟ جب کہ میں جانتا ہوں کہ آپ لڑنے والے برے بچے نہیں ہیں اور وہ بچہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا۔“

”آپ اُس بچے سے ملے تھے؟“
احمد نے اُن کے خاموش ہونے پر سوال کیا تھا۔

بڑے ابا کو صاف لگا کہ وہ اِس بات پر کافی پریشان ہوگیا تھا۔
”ہاں میں اس کے گھر گیا تھا۔“

”اس نے کچھ کہا تو نہیں؟“
احمد نے اگلا سوال فوراً ہی کیا تھا۔

”اسے کیا کہنا چاہیے تھا؟“ بڑے ابا بہت نرمی سے پوچھ رہے تھے۔ ”کیا کوئی خاص بات ہے جو وہ کہنے والا تھا اور میرے سامنے کسی وجہ سے نہیں کہہ پایا؟“
اب کے احمد بالکل خاموش تھا۔

اُس نے بڑے ابا کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔
”بولو بیٹا! بتاؤ، اگر وہ لڑکا قصور وار نہیں تو یہ بات ہمیں پرنسپل صاحب کو بتانا ہوگی ورنہ وہ اسے اسکول سے نکال دیں گے اور اگر اس نے جان بوجھ کر غلطی کی ہے تو پھر اس کا نتیجہ اسے بھگتنا پڑے گا۔

”غلطی دراصل میری ہے بڑے ابا!“
احمد بہت شرمندگی سے بولا تھا۔

”وہ جب سے آیا ہے، کسی نے اُس سے دوستی نہیں کی، سب اس کا مذاق اڑاتے تھے، کبھی اس کی رنگت کا، کبھی معمولی لباس کا، کبھی اس کے کمزور جسم کا، اسے سوکھی لکڑی کہتے۔ طرح طرح کے نام رکھتے۔ اگرچہ میں اِن ساری باتوں میں شامل تو نہیں تھا مگر میں نے کسی لڑکے کو کبھی روکا بھی نہیں، حالانکہ میں نے خود کئی دفعہ سلیمان کو سرخ آنکھوں کے ساتھ دیکھا، وہ یقیناً اِن تکلیف دہ باتوں پر روتا تھا مگر سب کے مقابلے میں وہ کمزور تھا، اکیلا تھا، اس لیے کر کچھ نہیں سکتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں سے چل رہا تھا کہ اُس دن……“
اتنا کہہ کر احمد رک گیا تھا۔

”کیا ہوا تھا اس دن؟“
بڑے ابا نے اسے بولنے کا حوصلہ دیا۔

”اس دن میں نے بھی اسے ایک غلط نام سے پکارا، اور نجانے اسے کیا ہوا؟ اچانک، اس نے نب میرے منہ پر دے ماری۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں!“
احمد اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا۔

وہ بڑے ابا کے چہرے کی طرف دیکھ نہیں پارہا تھا۔ اسے سخت شرمندگی تھی کیونکہ اصل قصور وار تو وہی نکلا تھا۔ بڑے ابا کتنے دکھی ہوں گے کہ ان کا پوتا اتنا برا تھا۔
”یہاں آؤ میرے پاس۔“ بڑے ابا نے اسے پکڑ کر پاس بٹھالیا تھا۔ ”کوئی بات نہیں، انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں، تم سے بھی غلطی ہوگئی، دوسروں کی دیکھا دیکھی تم نے اس بچے کے ساتھ زیادتی کردی، جبکہ تمھیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے کہ کسی کا مذاق اڑایا جائے، کسی کو برے نام سے پکارا جائے، اسی لیے اللہ نے خاص طورپر یہ فرمایا ہے:

یا یہا الذِین آمنوا لا یسخر قوم مِن قوم عس ن یونوا خیرا مِنہم ولا نِسا مِن نِسا عس ن ین خیرا مِنہن، ولا تلمِزوا نفسم ولا تنابزوا بِاللقابِ، بِئس الِاسم الفسوق بعد الِیمانِ ومن لم یتب فولءِ ہم الظالِمون۔ (الحجرات)
مفہوم:اے لوگو جو ایمان لائے ہو!کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں۔

تو بیٹا! اگر تم آئندہ اس بات کو پکا یاد رکھو اور اس بچے سے معافی مانگ لو تو تمھاری اس غلطی کی تلافی ہوسکتی ہے۔“
”سچ بڑے ابا!“ احمد کا اس خوش خبری پر چہرہ کھل اٹھا تھا۔

”بالکل سچ۔“ بڑے ابا بولے تھے۔
”اور ہاں، ہم سلیمان کو گھر بھی بلائیں گے تاکہ اس کی ہم سب سے دوستی ہوجائے اور وہ خود کو کبھی اکیلا نہ سمجھے۔“

یہ سن کر احمد کے دل سے جیسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔
٭٭٭