الطاف حسین
وہ زخمی حالت میں بھارتی فوج کے ایک بنکر (زمین دوز مورچہ) میں پڑا تھا۔ موت اس کے سر پر منڈلا رہی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ایک ایسی معنی خیز مسکراہٹ، جو صرف انہی چہروں پر دکھائی دیتی ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں!
نام اس کا احمد خان تھا اور وہ پاک فوج کی ’انفینٹری‘ (پیدل فوج) بٹالین کا وہ بہادر سپاہی تھا جس نے تن تنہا ’بنئے‘ کے بیالیس ’سورماؤں‘ کو ٹھکانے لگایا تھا اور ’ایمونیشن‘ ختم ہونے کے بعد بھی دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ رائفل کے ’’بٹ‘‘ اور ’سنگین‘ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مزید آٹھ بھارتی فوجیوں کا کام تمام کر دیا تھا۔
حق و باطل کے معرکہ کے دوران اس کے بائیں بازو اور گھٹنے سے ذرا اوپر گولیاں لگی تھیں جن کی وجہ سے اس کی خاکی وردی کا بایاں حصہ (بازو سے پاؤں تک) سرخ نظر آرہا تھا۔ جب وہ زخموں سے نڈھال ہو کر گرا تھا تو اسے گھیرے میں لینے والے بھارتی سپاہی ڈرتے ڈرتے اس کے قریب آئے تھے اور اسے اٹھا کر اپنے کمپنی کمانڈر کے سامنے لے آئے تھے۔ اس وقت بھارتی فوج کا کمپنی کمانڈر میجر چیتن اپنے سیکنڈ ان کمانڈ کیپٹن گپتا اور چند ماتحتوں کے ساتھ اس ’’بنکر‘‘ میں کھڑا تھا۔
’’تمھیں یقینا اس وقت موت کا خوف پریشان کر رہا ہوگا؟‘‘
میجر چیتن نے طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے نیچے گرے پاکستانی جانباز کی طرف دیکھا۔
’’میں مسلمان ہوں اور مسلمان موت سے ڈرا نہیں کرتے۔ موت کے نام سے تو تم جیسے کمزور دل لوگوں کا خون خشک ہوتا ہے۔‘‘
احمد خان نے نہایت جرات مندی سے جواب دیا۔
’’اگر ہم تمھیں چھوڑ دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟‘‘
میجر چیتن نے اس کے اشتعال انگیز جواب کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے نیا سوال کیا۔
’’میں پہلے سے زیادہ ایمونیشن لے کر پھر محاذ جنگ پر واپس آجاؤں گا۔‘‘
احمد خان جواباً مسکراتے ہوئے بولا: ’’اور میری کوشش ہو گی کہ ایک گولی ضائع نہ جائے، تمھاری ’سینا‘ سے اپنی پوری قیمت وصول کرے۔‘‘
احمد خان نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ موت کے منہ میں بیٹھا ہے دل کی بات فوراً زبان پر لے آیا تھا۔
’’بند کرو بکواس…!‘‘ میجر چیتن غصے کے الاؤ میں کھول اٹھا۔
’’مجھے خاموش کرنے کے بجائے اپنی قوم کا منہ بند کرنے کا کوئی مناسب سا جواز سوچو، جو خود تمہارے خلاف زہر اگلنے لگی ہے۔‘‘
احمد خان کے اس چبھتے جملے سے ان سب کے چہروں پر فکر کے آثار ابھر آئے تھے۔ اس کے اس ایک ہی جملے نے انھیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
’’تمھارے خیال میں اس جنگ میں فتح کس کی ہوگی؟‘‘
کیپٹن گپتا کے کالے ہونٹ ہلے۔
’’ان شاء ﷲ تعالیٰ ہم ہی فتح یاب ہوں گے۔‘‘
احمد خان کے ایک ایک لفظ سے یقین جھلک رہا تھا۔
’’وہ کس طرح؟‘‘ کیپٹن گپتا کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔
’’وہ اس طرح کہ ہم نے اپنے ملک و قوم کی بقا کی خاطر اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کر دینے کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم تم سے آخری سانس اور آخری گولی تک لڑیں گے۔‘‘
احمد خان جذبات کی رو میں بہتا چلا گیا۔
’’میں کہتا ہوں بند کرو بکواس…!‘‘ میجر چیتن غصے سے چیخا۔ احمد خان کی سچی باتوں نے اس کے تن بدن میں آگ سی لگا دی تھی۔
’’سر! ایک منٹ کے لیے پلیز، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس کے اندر اور کیا کیا ہے؟‘‘
’’اچھا! ٹھیک ہے پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو اس کے بعد…‘‘ میجر چیتن نے غصے سے دانت پیستے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
کیپٹن گپتا جلدی سے درمیان میں بولا ’’ وہ کیا چیز ہے؟ جو تم لوگوں کو میدان جنگ میں جم کر لڑاتی ہے، ہم بھاگ جاتے ہیں لیکن تم لوگ میدان نہیں چھوڑتے۔‘‘
’’ جذبہ اور حوصلہ …! اپنے دین، اپنے وطن اور اپنی قوم سے محبت کا جذبہ اور موت سے ٹکرا جانے کا حوصلہ۔‘‘
احمد خان فخریہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’اور یہ دونوں چیزیں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں، انھیں روپے پیسے سے خریدا نہیں جا سکتا…‘‘
’’میں کہتا ہوں… چپ ہوجاؤ۔‘‘ میجر چیتن غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے چیخا اور پھر اپنے ماتحتوں کی طرف مڑتے ہوئے حکم دیا۔ ’’ختم کر دو اسے۔‘‘
اگلے لمحہ احمد خان سے چند قدم دور کھڑے بھارتی سپاہیوں نے اپنی رائفلوں کا رخ اس کی طرف کر لیا۔
سپاہی احمد خان جاچکا تھا! لیکن جانے سے پہلے وہ اپنے دشمن کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔ وہ زندگی ہار کر بھی جیت گیا تھا… اور دشمن… زندہ رہ کر بھی ہار گیا تھا!!!
٭٭٭