Areeha Palestine City

اریحا……فلسطین کا ایک قدیم ترین شہر

عبداللہ خان

عرب میں خاص حرمین شریفین کو چھوڑ کر خطہئ شام میرا پسندیدہ ترین خطہ ہے۔ اُس کی ایک وجہ تویہی ہے کہ یہ انبیاء کی سرزمین ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام تہذیبوں کی بنیاد یہی خطہ ہے۔

یاد رہے کہ شام سے مرادمحض اِس وقت کا ملک شام (syria) نہیں بلکہ کچھ صدی قبل تک فلسطین،اردن،شام اور لبنان سمیت پورے خطے کو شام کہا جاتا تھا۔
بہرحال جہاں تک خطہئ شام میں خاص فلسطین کی بات ہے تو اس کی تاریخ یوں بتائی جاتی ہے کہ جس زمانے میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاشِ معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے، عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جو کنعانی یا فونیقی کہلاتی تھی، ۰۰۵۲ قبلِ مسیح میں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔

پھر آج سے چار ہزارسال پہلے یعنی لگ بھگ دو ہزار قبل مسیحمیں حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام عراق کے شہر اُر (UR) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا، ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعیل علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا۔

حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہما الصلوٰۃ و السلام) تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ اُنہی کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔

حضرت یعقوب، ان کے بیٹے حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یحیٰی، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام سمیت بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہئ زمین یعنی فلسطین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔

اب ہم بات کرتے ہیں فلسطین کے اُس شہر کی جسے دنیا کا قدیم ترین آباد شہر کہا جاتا ہے۔ یعنی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں وہ شہر جو ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ابھی تک مستقل آباد ہیں۔ اُن میں فلسطین کا شہراریحا اور ملک شام کا شہر دمشق سرفہرست ہیں۔

اس بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنیوقت میں بھی تہذیب یافتہ شہر تھے اور آج تک مسلسل آباد ہیں۔

اریحا جس کے مقامی زبان میں معنی ”خوشبودار“ ہیں، مغربی کنارے کا ایک فلسطینی شہر ہے۔ یہ وادیِ اردن میں واقع ہے، جس کے مشرق میں دریائے اردن اور مغرب میں یروشلم واقع ہے۔ ۷۰۰۲ء میں اس کی آبادی (18,346) تھی۔

کہا جاتا ہے کہ یہ شہردس سے گیارہ ہزار سال سے مستقل آباد ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اریحا میں ۰۲سے زیادہ بستیوں کی باقیات کا پتا لگایا ہے، جن میں سب سے قدیم بستی آج سے دسہزار سال پرانی تھی۔

اس شہر کی قدامت کی جڑیں زمینی تاریخ کے ہولوسین دور کے آغاز سے جا جڑتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مڈل اسٹون ایج کے زمانے کا شہر اریحا پہلا انسانی مرکز تھا جو ایک فصیل بند شہر تھا جو پتھروں سے بنائی گئی تھی، جس کے آثار تل سلطان سے ملے ہیں۔

شہر اور اس کے اردگرد بہتے چشموں نے ہزاروں سالوں سے انسانیت کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ وہ اسے اپنی رہائش کے لیے اختیار کرے۔ اُس وقت بھی اس شہر کے باسیوں نے مٹی اور بھوسے سے بنائی گئی اینٹوں کو گارے سے جوڑ کے مضبوط گھر بنا رکھے تھے۔ اریحا ہی کو انجیل میں کھجور کے درختوں کا شہر کہا گیا ہے!

چھے ہزار قبل مسیح تک یہاں کے لوگ جو شام اور اس سے ملحقہ علاقوں سے اس جگہ آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ انھوں نے کھیتی باڑی اور مٹی کے برتن بنانے کا کام یہاں شروع کیا۔

فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے بعد سے یہ شہر۹۴۹۱ء سے۷۶۹۱ء تک مغربی کنارے کے ساتھ اردن کے ماتحت تھا۔

۷۶۹۱ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں اُس پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا، تاہم ۴۹۹۱ء میں اس کا انتظامی کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

٭٭٭