جنگ بندی کے باوجود صہیونی دہشت گردی جاری

غزہ امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی فورسز کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں تیز ہوگئیں ،قابض صہیونی فوج نے ہفتے کوجنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس، البریج کیمپ اور مشرقی غزہ میں متعدد فضائی اور زمینی حملے کیے جن میں کئی رہائشی مکانات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق قابض اسرائیل کے جنگی طیاروں نے خان یونس کے مشرقی علاقوں پر تابڑ توڑ بمباری کی جس کے نتیجے میں زوردار دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا۔ذرائع نے بتایا کہ قابض فوج کی توپ خانے نے القرارہ اور عیسّان کے کئی محلوں کو بھی گولہ باری کا نشانہ بنایا، قابض اسرائیل کے ایک ”کواڈ کاپٹر” ڈرون نے وسطی غزہ میں واقع البریج کیمپ کے مشرقی حصے پر بم گرائے۔غزہ کے مشرقی علاقوں اور البریج کیمپ میں قابض فوج نے کئی رہائشی عمارتوں کو دھماکوں سے اڑا دیا جس سے درجنوں خاندانوں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔حملوں میں متعدد شہادتوں کی اطلاعات ہیں ۔ادھر غزہ میں امدا د کی ترسیل پر سخت پابندیوں کے باعث خوراک اور پانی کی شدید قلت کے باعث فلسطینی شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینی شہریوں کا قتل عام جاری رکھنا اس بات کا واضح اعلان ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی نظر میں کسی معاہدے،عہدوپیمان اور میثاق کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں انسانیت کا خون بہاکر اپنی بہیمیت کی تسکین کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اپنے تمام آپشنز ناکام ہونے کے بعد محض دنیا کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کی خاطر کیا تھا اور اس کا مقصد معاہدے کے نام پر دھوکہ دہی کے ذریعے اپنے باقی ماندہ قیدیوں اور لاشوں کو بازیاب کرانا تھا جس میں دو سال کی بد ترین نسل کشی اور اربوں ڈالرز کی عسکری ٹیکنالوجی جھونکنے کے بعد بھی اسے کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

امریکا کے بدکردار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے فورا بعد فلسطینی عوام پر جہنم دوراے کھولنے کی نہ صرف دھمکی دی تھی بلکہ اسرائیل کو تین ہزار پاؤنڈ وزنی مہلک ترین بموں کی فراہمی بحال کرکے اس پر عمل بھی کرکے دکھایا تھا۔ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد صہیونی درندے نیتن یاہو نے فلسطینیوں کا بے دریغ قتل عام کیا اور آخر میں غزہ شہرکی تمام عمارتیں تباہ کرکے غزہ کو خالی کرانے تک کی کوشش کی مگر اس کے باوجود وہ فلسطینی مجاہدین کو شکست دینے اور اپنے قیدی بازیاب کرانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔اپنی اس ناکامی اور خفت کو مٹانے کی کوشش میں نیتن یاہو نے قطر پر حملہ کرنے کی تاریخی غلطی کی جس کے نتیجے میں قطر اور عرب ممالک کی امریکا میں ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری خطر میں پڑ گئی۔ دوسری جانب غزہ میں انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کی تمام حدیں عبور ہونے کے بعد اسرائیل اور امریکا پر عالمی پھٹکار پڑنے لگی اور معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو امریکی صدر ٹرمپ کو بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی سوجھی اور انہوں نے کچھ اسلامی ممالک کو بیچ میں ڈال کر جنگ بندی کا معاہدہ کرایا۔اگر چہ اس معاہدے میں بھی زمینی حقیقتوں اور انصاف کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کو بہت سی رعایتیں دی گئیں تاکہ اس کی ناکامی اور شکست کا تاثر غالب نہ ہوجائے مگر اس کے باوجود اسرائیل اور امریکا اس حقیقت کو چھپانہیں سکتے تھے کہ غزہ کی تسخیر اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کا ان کا اعلانیہ منصوبہ ناکام ہوچکا ہے، اس لیے اب اسرائیل کی جانب سے بہانے بہانے سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور امریکا نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اپنی بدمعاشی جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ چنانچہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر نہ صرف غزہ میں بدستور مظالم ڈھارہی ہے بلکہ اس کی جانب سے مغربی کنارے میں بھی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔

یہ صورت حال پوری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور بالخصوص ان اسلامی ممالک کا جنہوں نے غزہ امن معاہدے کی تشکیل میں حصہ لیا تھا،یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں اڑانے کا نوٹس لیں اور امریکا پر یہ واضح کردیں کہ اس کی جانب سے اسرائیل کو اس کے لیے شہ دینے کا عمل قابل قبول نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ترکیہ نے جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کے لیے پیر کو استنبول میں عرب ومسلم ممالک کا اجلاس طلب کرلیا ہے ،پاکستان قطر اردن سعودی عرب انڈونیشیا اورمتحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کو اس بارے میں واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے اور غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی رکوانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ خاص طور پر عرب ممالک کی قیادت بھی فطرت کے اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کرے، قدرت نے انھیں جس دولت و ثروت کا عارضی مالک بنایا ہے، اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور تعاون کے لیے آگے آ جائے تاکہ مسلم امہ ان کیلئے اطاعت، محبت، اخوت اور باہمی رشتے کے جذبات و احساسات کو شعوری طورپر محسوس کرسکے۔ اہلِ غزہ کے لیے مسلم ممالک کی خاموشی انہی کے حق میں مضر ثابت ہوگی۔

اس وقت ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار ہوچکی ہے۔ اسلامی ممالک کو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آزادی اور خودمختاری کے ساتھ جینے کا حق دیے بغیر مشرق وسطی میں امن کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ سعودی عرب، قطر، ترکیہ، پاکستان اور دیگر اہم مسلم ممالک کو آنے والے حالات کا ادراک کرکے مسلم دفاعی اتحاد کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی، موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کو بنیاد ی قدر قرار دیا جائے، تمام طاقتوں پر واضح کردیا جائے کہ کسی بھی خطے میں مسلمانوں کو لاوارث نہیں چھوڑا جائے گا، مسلم ممالک کے باہمی اتحاد میں اس نکتے پر اتفاق کو عملی شکل دی جائے اور غزہ کے مسلمانوں کو بلاخوف امداد پہنچانے کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو اس کے نتائج خود عربوں کے حق میں بہتر ہوں گے اور انھیں وہ داخلی تقویت، حمایت اور عوامی ساکھ نصیب ہو جائے گی جس سے وہ بتدریج محروم ہوتے جا رہے ہیں۔