پاکستان کرۂ ارض کے اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جنہیں قدرت نے بے شمار معدنی وسائل، تیل و گیس کے ذخائر اور قیمتی دھاتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم اپنی زمین کے سینے میں چھپے ان خزانوں کا درست انداز میں جائزہ لیں تو یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ پاکستان کی معیشت کو نئی زندگی دینے، قرضوں سے نجات دلانے اور صنعتی انقلاب برپا کرنے کی تمام تر صلاحیت انہی معدنی ذخائر میں پوشیدہ ہے، مگر افسوس کہ یہ قیمتی دولت آج بھی بڑی حد تک زمین کے نیچے دفن ہے اور ہم اپنی نالائقی، غفلت اور ناقص پالیسیوں کے باعث اس سے وہ فائدہ حاصل نہیں کر پائے جو دیگر ممالک اپنی معدنی دولت سے حاصل کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے ریکوڈک کو ہی لے لیجیے، جہاں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہاں موجود معدنیات کی مالیت تقریباً 500ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے تھر کول فیلڈ میں کوئلے کے ایسے وسیع ذخائر ہیں جو پاکستان کو کئی دہائیوں تک توانائی کے بحران سے نجات دلا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کے متعدد ذخائر دریافت ہو چکے ہیں، جبکہ پنجاب میں نمک، جپسم، چونے کا پتھر، لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات بڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان کا کھیوڑہ کان والا نمک دنیا بھر میں مشہور ہے، جو نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ برآمدات کے لحاظ سے بھی ایک اہم ذریعہ ٔآمدن بن سکتا ہے۔
تاہم المیہ یہ ہے کہ پاکستان ان بیش بہا ذخائر کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس وسائل بالکل نہیںبلکہ یہ کہ ہم نے اپنی ترجیحات کبھی درست نہیں رکھیں۔ ہمارے منصوبہ سازوں نے صنعتوں کے قیام، معدنی وسائل کی تلاش اور ان کے استعمال کے بجائے زیادہ تر غیر پیداواری کاموں پر توجہ دی۔ دوسری طرف بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام، انتظامی نااہلی اور غیر ملکی دباؤ نے بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔
ریکوڈک منصوبہ ہی کی مثال لیجیے، جہاں قانونی تنازعات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے تنازعات نے کئی دہائیوں تک کام روک رکھا۔ یہ منصوبہ جنوبی بلوچستان، ضلع چاغی میں واقع ہے اور اسے دنیا کے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مالی اداروں نے اس منصوبے کی فنانسنگ میں دلچسپی لی ہے۔ تعمیراتی فیز کی تیاری شروع ہو چکی ہے، اور بڑی مشینی و ٹیکنالوجی فرما داریاں متعین کی گئی ہیں، منصوبے کی پہلی پیداوار کا ہدف 2028تک قائم کیا گیا ہے، یعنی اس سال تک خام تانبا اور سونا نکالنے کا عمل شروع کرنے کی تیاری ہے۔ ابتدائی صلاحیت تقریباً سالانہ 45ملین ٹن خام مادہ ہوگی، اور بعد میں اسے تقریباً 90ملین ٹن تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔ منصوبے کی لاگت پہلے طے شدہ رقم سے بڑھ کر ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر ایک رپورٹ میں 6.7ارب ڈالر کی لاگت کا ذکر ہے جو پہلے کے اندازوں سے 58فیصد زیادہ ہے۔ مختصراً یہ کہ منصبوبے کے لیے بنیادی معاہدے طے ہوچکے ہیں، بنیادی مالی معاونت مل رہی ہے، اور پیداوار کا ہدف 2028ہے۔ البتہ یہ ابھی عملی فیز میں نہیں آیا، یعنی پیداوار شروع نہیں ہوئی۔ اب کام کی رفتار، فنانسنگ کی تکمیل، تعمیراتی مرحلے کی شروعات اور علاقائی چیلنجز کا حل اہم ہوں گے۔
پاکستان کے پاس اگر جدید مشینری اور تکنیکی مہارت کی کمی ہے تو اس کا حل بیرونی کمپنیوں کے رحم و کرم پر رہنا نہیںبلکہ اپنی مشینری اور ٹیکنالوجی خود تیار کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ملک جو جدید میزائل سسٹم، جنگی طیارے، آبدوزیں اور ٹینک بنا سکتا ہے، وہ معدنیات نکالنے اور پراسیسنگ کی مشینری کیوں نہیں بنا سکتا؟ ہمارے انجینئرز اور سائنسدانوں میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرے، تو چند سالوں میں ہم خود کفیل ہو سکتے ہیںحکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی معدنی ترقیاتی پروگرام کے نام سے ایک جامع منصوبہ شروع کرے جس میں انجینئرنگ یونیورسٹیوں، صنعتی اداروں اور نجی شعبے کو شامل کیا جائے۔ ان منصوبوں کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ فنڈز مختص کیے جائیں، مقامی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور نوجوان انجینئرز کو اس میدان میں عملی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک آزاد معدنی ترقیاتی اتھارٹی قائم کی جائے جو منصوبوں کی نگرانی کرے اور بدعنوانی کے تمام دروازے بند کرے۔اگر پاکستان اپنے معدنی ذخائر سے بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ہمیں نہ صرف بجلی اور گیس کے بحران سے نجات مل سکتی ہے بلکہ برآمدات میں اضافہ، روزگار کے نئے مواقع اور روپے کی قدر میں استحکام بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ تیل، گیس اور سونے کے ذخائر ہمارے قرضوں سے کئی گنا زیادہ قیمتی ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابوں سے نکل کر عملی میدان میں قدم رکھیں۔
وقت آ چکا ہے کہ حکومت اور قوم دونوں یہ طے کریں کہ ہم کب تک دوسروں پر انحصار کرتے رہیں گے۔ اگر ہم اپنی زمین کے سینے میں چھپے ان خزانوں کو اپنی محنت، علم اور ٹیکنالوجی کے زور پر نکالنا شروع کر دیں تو پاکستان چند برسوں میں نہ صرف خود کفیل بلکہ ایک مضبوط اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر ہماری معدنی دولت زمین کے نیچے دفن رہے گی اور ہم دنیا سے قرض مانگنے والے رہیں گے، حالانکہ دولت ہمارے قدموں کے نیچے ہے۔

