حقیقی صوفی کو کیسے پہچانا جائے؟

ہمارے ہاں تصوف اور اہل تصوف کے حوالے سے بہت سے مغالطے، غلط تصورات ، ضرورت سے زیادہ خوش گمانیاں اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان مغالطوں پر بات ہوتی رہتی ہے ، بعض کی جڑیںاتنی گہری ہیں کہ اکھاڑنا آسان نہیں۔ اگلے روز ایک صاحب نے مزے کی بات کی۔ کہنے لگے کہ درویشوں کی مثال بھی حکیموں اور ہومیوپیتھ ڈاکٹروں کی سی ہے۔حاذق حکیم اور قابل ہومیو پیتھ ڈاکٹر کی افادیت میں کوئی شک نہیں،مگر مسئلہ یہ ہے کہ چاروں طرف بکھرے حکیموں، ہومیو پیتھ میں سے شاذ ہی کوئی جینوئن طبیب نکلتا ہے۔سینکڑوں، ہزاروں اور کبھی تو لاکھوں میں سے ایک آدھ ۔ یہی حال اہل روحانیت کا ہے، بے شمار پیر فقیر نظر آئیں گے، مرشد کامل ان میں سے شائد ہی ملے ۔

صاحب روحانیت کی کھوج میں نکلا جائے تو دو بڑے بیریئر ز یا رکاوٹیں سامنے آتی ہیں۔ ہمارے ہاں مجذوبوں کے حوالے سے ایک خاص قسم کی رومانویت موجود ہے۔ لوگ شارٹ کٹ چاہتے ہیں، ان کے من میں یہی ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کا دامن پکڑا جائے تو ایک نظر ان پر ڈالے اور ان کی تقدیر بدل دے۔ عوامی زبان میں فوراً ہی بیڑی (کشتی) پار کرا دے۔ مجذوبوں کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ ان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے۔ تصوف کے متعلق جو قصے کہانیاں عام ہیں اس کا ایک بڑا حصہ مجذوبوں اور مجذوبیت کے متعلق ہے۔ ایک دانشور کی بات یاد آئی، اس نے لکھا تھا، سپرنارمل اور ایب نارمل میں معمولی سا فرق ہوتا ہے، ایک باریک سی لکیر دونوں کو الگ کرتی ہے۔ہوتا یہ ہے کہ سپر نارمل یعنی غیرمعمولی روحانی قوت رکھنے والا مجذوب تو ممکن ہے کہیں ہو، مگر زیادہ تر کا واسطہ ابنارمل، شیزوفرینک یعنی ‘سپیشل پرسنز’ سے پڑتا ہے جن کے ہوش وحواس کام نہیں کر رہے، منہ سے رال ٹپک رہی ، جسم پر گندگی ، لباس ادھورا، بال الجھ کر جٹاں کی شکل اختیار کر چکے ہوتے۔ ان بیچاروں کو کسی اچھے نفسیاتی معالج خانہ میں علاج کی ضرورت ہے، یار لوگ انہیں پیر کامل مان لیتے ہیں۔ ہاتھ پیر دبائے جا رہے، خدمت ہو رہی ۔ یہ سب کسی لاٹری ، پرائز بانڈ وغیرہ کے لکی نمبرکے چکر میں کیا جاتا ہے۔ اب اس مخبوط الحواس ، ذہنی مریض نے منہ سے جو بھی نکال دیا،مریدین خوشی خوشی ان میں سے مخفی معنی نکالنے لگتے ہیں۔ اس نے گالیاں نکالیں تو انہیں امرت سمجھ کر ان میں سے کوئی نہ کوئی عدد برآمد کر لیا جاتا ہے۔ اتفاق سے کوئی تکا لگ گیا تو وہ قصہ مشہور ہوگیا۔

روحانیت کی تلاش میں نکلنے والوں کو عامل حضرات کی صورت میں دوسرے بڑے بیریئر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عاملوں میں سے بعض تو بنگالی بابا ٹائپ ہوتے ہیں جو بھاری نذرانہ لے کر ہر ممکن ناممکن کام کرنے کی ہامی بھر تے ہیں۔ بعض اخبارات میں ان کے اشتہارات بھی مل جاتے ہیں۔ عاملوں کی یہ قسم دوسرے درجے کی ہے، اگرچہ انہیں بھی اپنی مرضی کے شکار مل جاتے ہیں۔ عامل حضرات کی ایک قسم پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ روحانیت پر کتابیں بھی پڑھتے رہتے ہیں، کچھ نہ کچھ معلومات بھی حاصل ہیں، کسی روحانی سلسلے یا روحانی بزرگ سے منسلک بھی رہے ۔ ان میں سے کچھ راہ سلوک کے مسافر بھی رہے ، مگر جلد پٹری سے اتر گئے۔ جاہ طلبی، مال وزر کی ہوس یا پھر اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا شوق انہیں گمراہ کر دیتا ہے۔ان کی زیادہ دلچسپی اپنی باطنی تربیت اور شخصیت کو بہتر بنانے سے زیادہ کوئی خرقِ عادت (غیرمعمولی) صلاحیت پیدا کرنے میں رہتی ہے۔ مختلف علوم وہ سیکھتے اور بعض مخصوص مشقوں سے خود کو گزارتے ہیں۔ چلے کاٹے جاتے اور موکلات کی تسخیر کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اپنی اس کوشش اور محنت کے نتیجے میں بسا اوقات کچھ نہ کچھ مہارت انہیں حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا روحانیت یا قرب خداوندی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک خاص میدان میں محنت اور مشقوں سے ہندو جوگی، بعض مسیحی پادری اور بدھ بھکشو، تبتی لاما وغیرہ بھی بعض غیرمعمولی یا ماورائی قوتوں کے مالک ہوجاتے ہیں اور کچھ نہیں تو تھوڑی بہت شعبدہ بازی سے کام چل جاتا ہے ۔

راہ سلوک کے مسافروں کو دقت یہ ہوتی ہے کہ درجہ اول کے ان عاملوں کو جینوئن روحانی بزرگوں سے الگ کیسے کیا جائے؟ یہ پڑھے لکھے عامل روحانی اسلوب میں شائستہ گفتگو کرتے اور مختلف روحانی کتب یا محافل سے اخذ کردہ ایسے فقرے (ون لائنر) بولتے ہیں جومخاطب کو متاثر کردیں۔ مقصدروحانیت کی دھاک بٹھاناہوتا ہے۔بڑے ٹھسے سے عجب عجب دعوے بھی کئے جاتے ہیں۔ جینوئن فقیر یا درویش ایسا نہیں کرتا۔ روحانیت ہے ہی دو دعوؤں کے درمیان کی چیز جسے معلوم ہے، وہ (اخفائے راز کے ڈر سے مصلحتاً) کہتا ہے میں نہیں جانتا، جسے کچھ نہیں پتہ، وہ صاحب روحانیت ہونے کا دعوی کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ جواب بہت آسان اور سادہ ہے ۔ روحانیت کیوں حاصل کی جائے ؟ جواب ملتا ہے تاکہ ہم نیک ہوجائیں۔ ایسی صورت میں بزرگ ایک آسان حل بتاتے ہیں کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے ۔ بار بار پڑھا جائے ، حتی کہ واقعات یاد ہوجائیں۔ پھر پیروی کی کوشش کی جائے۔ طریقہ یہ اپنایا جائے کہ زندگی کے مختلف مراحل ، کیفیتوں اور کمزور، جذباتی ، اداس، تلخ، پرمسرت لمحات میں یہ دیکھا جائے کہ ہمارے آقا، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو آپ کا طرز عمل کیا ہوتا؟ اللہ توفیق دے تو اسی عمل کو دہرانے کی کوشش کی جائے۔ معاملات میں، لین دین میں، عبادات ، اخلاقیات ہر جگہ، ہمسایوں ، ساتھیوں، بیوی بچوں، رشتے داروں، مخالفت کرنے والوں، دشمنی کرنے والوںسے سلوک، دوستوں سے محبت ، غرض ہر معاملے میں سیرت کا رول ماڈل موجود ہے، اسے اپنایا جائے ۔

روحانیت کا جوہر یا نچوڑ یہی ہے۔ پورا تصوف اسی نکتے پر کھڑا ہے ۔ صوفی یا فقیر لوگ سالک، مرید ، شاگردوں کی اسی نہج پر تربیت کرتے ہیں، ان کا تزکیہ نفس کرتے ، باطنی صفائی اور ایثار وقربانی کی عادت ڈالتے ہیں۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، عہدشکنی، ریا کاری، بداخلاقی، بدزبانی، خود غرضی اور اس جیسی بہت سی خامیاں دور کی جاتی ہیں۔البتہ روحانیت کی مختلف اصطلاحات کو سمجھنا ہو، علم لدنی کی مختلف شاخوں کا علم حاصل کرنا ہو تو صوفیا کی کتابیں پڑھی جائیں۔ حضرت سید علی ہجویری کی کشف المحجوب جن میں سرفہرست ہے۔ دیگر صوفیاکی کتابیں پڑھی جائیں اور علم میں اضافہ کیا جائے۔ ایک مشکل ہے کہ اکثر کتابیں مشکل ، دقیق اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین ابن عربی کی کتابیں پڑھنااور سمجھنا تو اچھے خاصے عالم کے بس کی بات نہیں۔

ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس عہد کے ایک بڑے صوفی جناب سرفراز اے شاہ نے تصوف پر نہایت آسان زبان اور اسلوب میں شاندار کتابوں کی ایک پوری سیریز تحریر کی ہے۔ سرفراز شاہ صاحب وارثی، صابری، چشتی سلسلے کے بزرگ ہیں،مگر اپنی وضع قطع میں کہیں سے وہ پیر نہیں لگتے۔مینجمنٹ کے آدمی ہیں، مرتب، منظم، انگریزی بولنے والے، ایک معروف برطانوی یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے، قدیم وجدید پر گہری نظر رکھنے والے بزرگ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ‘کہے فقیر’ کو غیرمعمولی پذیرائی ملی۔ اردو کی سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔تیس کے قریب ایڈیشن نکل چکے، اس سیریز میں آٹھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔خاکسار کو قبلہ سرفراز شاہ کے دو تین تفصیلی انٹرویوز کرنے کا موقعہ ملا، ان کے ساتھ کئی نشستوں کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ شاہ صاحب سے تصوف کے حوالے سے ایک نشست میں باقاعدہ کئی سوالات اسی موضوع پر کئے جس پر آج کالم لکھ رہا ہوں۔ (جاری ہے)