اسرائیل کی امن کو پھرجنگ میں بدلنے کی تیاریاں،امداد معطل

غزہ/واشنگٹن/پیرس/تل ابیب/بیروت:اسرائیلی فوج نے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید 3 فلسطینیوں کو شہیدکردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کا بتانا ہے کہ اسرائیلی فوجی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں مزید 3 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ نابلس میں قابض اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک بچہ آیسَم معلا شہید ہوگیاوہ چند ہفتے قبل بیتا قصبہ کے اطراف زیتون کے درختوں کی فصل جمع کرنے کے دوران قابض اسرائیل کی فائرنگ سے زخمی ہوا تھا۔

دوسری جانب غزہ کے شہری دفاع کے مطابق غزہ شہر میں کلینک کے ملبے سے 35 ناقابل شناخت لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے 2 سال سے زائد عرصے سے جاری بربریت میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 69 ہزار 180 سے زائد ہوگئی ہے جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج کے حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں میں زیادہ تر رہائشی عمارتیں اور عام شہری متاثر ہو رہے ہیں، اسرائیل دو منزلہ عمارتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدے کی کامیابی کیلئے رفح کا معاملہ حل ہونا ضروری ہے۔ امریکا نے اسرائیل سے رفح میں محصور فلسطینیوں کو محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کردیا،صدر ٹرمپ کا پیغام جیرڈ کشنر نے نیتن یاہو تک پہنچا دیا ہے۔

ادھر فلسطینی صدر محمود عباس کی فرانسیسی صدر میکرون سے ملاقات میں فلسطینی آئین بنانے کے لیے مشترکہ کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہو گیا۔ پیرس میں ملاقات کے دوران دونوں صدور کے درمیان غزہ امن معاہدے کے اگلے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا۔

صدر میکرون اور صدر محمود عباس نے ریاست فلسطین کو مضبوط کرنے کے لیے فلسطینی آئین کی تیاری اور اس کی معاونت کے لیے مشترکہ کمیٹی فوری بنانے پر اتفاق کیا جس کے بعد صدر محمود عباس نے فلسطینی آئین کا مسودہ صدر میکرون کو پیش کیا۔فرانسیسی صدر کے دفتر کے مطابق فلسطینی ریاست کی مضبوطی کے لیے حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ ایک خودمختار ریاست وجود میں آئے۔

ادھرقابض اسرائیلی فوج نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں چھاپوں کی وسیع کارروائیاں کیں جن کے دوران کم از کم چار فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، ایک شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ کئی گھروں کی تلاشی اور توڑ پھوڑ کی گئی۔

شہر الخلیل میں قابض فوج نے حلحول قصبے میں خالد ابو جعفر کے دو بیٹوں انس اور احمد کے علاوہ نوجوان عاصم رزق البربراوی کو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔اسی علاقے کے قریب واقع قصبے بیت امر میں بھی قابض فورسز نے دو بھائیوں ایمن اور امین محمد العلامی کو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لے لیا۔

الخلیل ہی سے عبدالعزیز عبدالحمید الجمل اور فارس نعیم کو ان کے گھروں کی تلاشی کے بعد گرفتار کیا گیا جب کہ فوجیوں نے گھروں کی تلاشی کے دوران سامان تہس نہس کردیا۔بیت لحم کے جنوبی علاقے الخضر میں قابض فورسز نے انیس سالہ نوجوان محمود حکمَت عیسیٰ کو اس کے والد کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔

جنین میں اسرائیلی فوج نے سیلہ الحارثیہ قصبے پر دھاوا بول کر ایک فلسطینی نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایاجسے زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ صبح کے وقت جنین کے جرمن محلے میں بھی فوج نے ایک گھر پر چھاپہ مار کر تلاشی لی اور سامان کونقصان پہنچایا۔

گزشتہ رات جنین میں اسرائیلی فورسز نے شہریوں کی گاڑیاں روک کر ان کی تلاشی لی اور شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی۔نابلس میں قابض فورسز نے بدھ کی صبح بیت فْوریک کے داخلی راستے پر قائم چوکی کو دوبارہ بند کر دیا جو منگل کے روز نو گھنٹے تک بند رہی تھی۔ اس دوران درجنوں شہریوں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، کو گزرنے سے روک دیا گیا۔

دوسری جانب غزہ میں قابض اسرائیل کی فوجی خلاف ورزیوں میں اضافے اور انسانی حالات کے سنگین بگڑنے کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر انتباہات بڑھ گئے ہیں کہ موجودہ ”نازک” جنگ بندی معاہدہ کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی ہے جب امدادی سامان کی آمد پر پابندیاں جاری ہیں اور شہریوں کی مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی تنظیمیں بارہا یہ واضح کر چکی ہیں کہ قابض اسرائیل امدادی سامان کی آمد میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور بچوں اور مریضوں کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی روک رہا ہے۔ نئی سیاروی تصاویر سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وہ علاقے جو جنگ بندی کے تحت ہیں وہاں وسیع تباہی پھیلی ہوئی ہے۔

قابض اسرائیل کے بیانات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ دوبارہ جنگی کارروائیوں کے لیے تیار ہے۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے دار غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے ٹوٹنے کے امکانات پر تشویش میں مبتلا ہیں۔

امریکی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ معاہدے کے کئی اہم نکات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ہیں اور اس کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں جس سے معاہدے کے مستقبل پر غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

امریکی اخبار پولیٹیکو کے مطابق یہ معلومات خصوصی دستاویزات سے حاصل ہوئی ہیں جو گزشتہ ماہ امریکی سینٹ کام اور سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر کے زیر اہتمام دو روزہ اجلاس میں پیش کی گئیں۔

دریں اثناء اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کیلئے سزائے موت کے قانون کی منظوری کے بعد انتہاپسند وزیر بِن گویر نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ انکی جماعت یہودی پاور تاریخ رقم کر رہی ہے۔

علاوہ ازیںامریکی کانگریس کے 100 ڈیموکریٹ ارکان نے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مائیکل میکول سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں صہیونی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے اور اس کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے کے لیے ایک قانون پیش کریں۔

ان اراکین نے چیئرمین کمیٹی کو بھیجے گئے اپنے مشترکہ خط میں کہا کہ مغربی کنارے میں سرگرم انتہا پسند آبادکار تنظیمیں مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ڈیموکریٹ اراکین نے واضح کیا کہ مغربی کنارے میں تشدد کا خاتمہ علاقائی استحکام کے لیے ناگزیر قدم ہے۔

عبرانی اخبار ہارٹز کے مطابق مغربی کنارے میں رواں سال کے آغاز سے اکتوبر تک قابض صہیونی آبادکاروں نے فلسطینی شہریوں کے خلاف کم از کم 704 حملے کیے۔

قبل ازیںبرطانیہ میں نشر ہونے والی ایک نئی دستاویزی فلم میں ایسے اسرائیلی فوجیوں کے انکشافات پیش کیے گئے ہیں جو جنگ کے دوران طویل مدت تک غزہ میں تعینات رہے۔اسرائیلی فوجیوں نے دستاویزی فلم میں بتایا کہ غزہ کی صورتحال دہشت ناک اور بدترین تھی۔

وہاں سخت گرمی، ریت، بدبو اور گلی میں بھٹکتے مردہ اجسام کھاتے کتے موجود تھے۔ غزہ میں کوئی درخت، کوئی پودا یا کوئی سڑک نہیں تھی۔برطانوی دستاویزی فلم میں اسرائیلی فوجیوں نے اپنے تجربات کھل کر شیئر کیے ہیں۔

اِن میں سے کچھ فوجی ایسے بھی تھے جنہوں نے غزہ جنگ میں اپنی شمولیت پر شرمندگی کا اظہار کیا جبکہ کچھ نے بلا خوف یہ بتایا کہ اْنہوں نے انسانی حقوق کے خلاف کس طرح ناقابلِ قبول کارروائیاں کیں۔ایک فوجی نے بتایا کہ غزہ میںہر جگہ، ہر وقت کسی کو بھی گولی مارو کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔

ایک کمانڈر نے کہا کہ غزہ میں کوئی انسان نہیں ہے’ جیسا مؤقف عام تھا۔ایک خاتون میجر نے بتایا کہ اِن کے بریگیڈ کے ربی نے اِنہیں کہا تھا کہ ہمیں 7 اکتوبر 2023ء کو حملہ کرنے والوں جیسا بننا ہے۔ایک ٹینک کمانڈر نے بتایا کہ غزہ میں گھروں کو ڈھانے کے لیے کوئی قانون نہیں تھا، بس شک کا ہونا کافی تھا۔

دوسری جانب امریکا نے غزہ استحکام فورس کے قیام کیلئے ایک نئی ترمیم شدہ قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کر دی۔ غیرملکی میڈیارپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش قرارداد کے تحت غزہ استحکام فورس کو ایک بورڈ آف پیس کے تحت قائم کیا جائے گا جس کی سربراہی صدر ٹرمپ کریں گے۔

یہ بورڈ غزہ کی معاشی بحالی کے پروگراموں اور غیر ریاستی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے اقدامات کی نگرانی کیلئے مختلف ذیلی ادارے بھی قائم کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی مسودے میں ٹرمپ کا مکمل 20 نکاتی امن منصوبہ شامل کیا گیا ہے۔

اسرائیلی ریاست کے فوجی سربراہ ایال زامیر نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس کے بہت بڑے اور تباہ کن حملے کی سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تحقیقات پر زور دیا ہے تاکہ اسرائیلی سیکورٹی اداروں کی اس ناکامی کی وجوہات تلاش کی جا سکیں اور حماس کی اس حملے میں کامیابی کا جائزہ لیا جا سکے۔آرمی سربراہ نے کہا تاہم یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس طرح کا واقعہ پھر کبھی نہ ہو سکے۔

ادھرکلب برائے اسیران نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی سکیورٹی انتظامیہ مصر بھیجے گئے سابق فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کو سفر کرنے سے مسلسل روک رہی ہے، یہ اقدام انتقامی اور اجتماعی سزا کی منظم پالیسی کا حصہ ہے۔

کلب برائے اسیران کے صدر عبد اللہ الزغاری نے بدھ کے روز کہا کہ بعض اسیران جنہیں مصر بھیجا گیا ہے، سنگین طبی مسائل کا شکار ہیں اور انہیں مسلسل طبی نگہداشت اور اپنے اہل خانہ کی موجودگی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے جنین کے 71 سالہ اسیر عبد الرحمن صلاح کی مثال دی جو اس سال کے آغاز میں رہائی کے بعد ایک مصر کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل اسیران کے خلاف انتقامی رویہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ادھرقابض اسرائیل شمالی بیت المقدس کے علاقے قلندیا میں ایک کوڑا جلانے کا کارخانہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔اس منصوبے کے نتیجے میں دسیوں فلسطینی خاندانوں کے مکانات مسمار کیے جا سکتے ہیں، نیز تقریباً 150 دونم زرعی زمینیں قبضے میں لی جائیں گی تاکہ نسل کشی کے مظالم کا حصہ ہونے والے علیحدگی کی دیوار کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل میں امریکی ایلچی جیرڈ کشنر سے ملاقات کی جس میں رفح میں پھنسے افراد کی صورتحال اور غزہ کے لیے امریکی منصوبے کے اگلے مرحلے پر تبادلہ خیال کیاگیا۔

امریکی ٹی وی کے مطابق بدھ کو اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ نیتن یاہو اور جیرڈ کشنر نے حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے پر بات چیت کی کہ تحریک غزہ میں دوبارہ کوئی کردار ادا نہ کرے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ محصور حماس کے ارکان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کیا جائے گا۔

ایک اسرائیلی عہدیدار نے بتایا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کو اپنی طاقت دوبارہ بنانے کی اجازت نہیں دے گا ہم اس کے خطرات کو ختم کرنے کے لیے کام جاری رکھیں گے اگر لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرتی ہے تو اسرائیل بھی اسی طرح کے اقدامات کرے گا اور ان اقدامات میں امریکا کے ساتھ مل کر لبنان میں اپنی موجودگی کو بتدریج کم کرنا بھی شامل ہوگا۔