علامہ محمد اقبال اور جدید سیاسی نظام

دوسری قسط:
نظام خلافت کے حوالے سے ایک اہم بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جس کی طرف علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ میں اشارہ کیا ہے کہ اہل سنت کے نزدیک یہ نظام ”خلافت” کے عنوان سے ہے جبکہ اہل تشیع اسے ”امامت” سے تعبیر کرتے ہیں اور میرے خیال میں ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ:

(١) ”خلافت” کی بنیاد نامزدگی پر نہیں بلکہ امت کی صوابدید اور اختیار پر ہے، جبکہ ”امامت” اہل تشیع کے بقول منصوص ہے اور نامزدگی کے ذریعے اس کا تعین ہوتا ہے۔ (٢) ”خلافت” کسی خاندان اور نسل میں محدود نہیں، جبکہ ”امامت” صرف ایک خاندان میں محدود ہے۔ (٣) ”خلیفہ” کا دینی درجہ مجتہد کا ہے جس کے فیصلوں اور احکام میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال موجود رہتا ہے، جبکہ ”امام” معصوم ہے، اس کی رائے میں خطا کا احتمال نہیں اس لیے کسی بھی معاملہ اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔

(٤) ”خلیفہ” اپنی خلافت میں خدا کی نمائندگی نہیں کرتا، جبکہ ”امام” خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”خلیفة الرسول” کہا جاتا تھا۔ قاضی ابو یعلی نے ”الاحکام السلطانیہ” میں روایت نقل کی ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت ابوبکر کو ”یا خلیفة اللہ” کہہ کر پکارا تو خلیفہ اول نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں بلکہ رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا کی نمائندگی کے نام پر کوئی پاپائی اختیارات نہیں رکھتا بلکہ رسول اللہ کے نمائندہ کے طور پر ان کی ہدایات اور تعلیمات کا پابند ہوں، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے خطبہ میں صاف طور پر فرما دیا کہ میں اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر ایسا نہ کروں تو میری اطاعت تمہارے لیے ضروری نہیں ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ یہ تھیاکریسی کی نفی تھی اور شخصیت کی بجائے دلیل کی حکومت کے قیام کا اعلان تھا جس سے اسلام کے نظام خلافت آغاز ہوا۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اہل سنت کے موقف اور روایات کے مطابق) اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا بلکہ خلیفہ کے انتخاب کو امت کی صوابدید اور اختیار پر چھوڑ دیا تھا، چنانچہ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک موقع پر خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن پھر یہ کہہ کر ارادہ ترک کر دیا کہ ”یابی اللہ و المومنون الا ابابکر” ابوبکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ بنانے سے اللہ تعالیٰ بھی انکار کرتا ہے اور مومنین بھی اس پر راضی نہیں ہوں گے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے امت کی اجتماعی صوابدید پر اعتماد کا اظہار تھا اور حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کسی کو نامزد کر کے نامزدگی کو ہمیشہ کے لیے قانون نہ بنا دیا جائے، چنانچہ حضرت ابوبکر کی خلافت کا فیصلہ عوامی رائے بلکہ اچھے خاصے عوامی بحث و مباحثہ کے بعد ہوا اور اس طرح امت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ اپنے حکمران کا خود انتخاب کرے۔

اس کے ساتھ اگر مسلم شریف کی ایک اور روایت کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جو تم سے نفرت کریں اور تم ان سے نفرت کرو”۔ اس میں بھی اشارہ ہے کہ حاکم اور رعیت کے درمیان اعتماد کا رشتہ ضروری ہے، البتہ اس اعتماد کے اظہار کی عملی صورت ہر زمانہ کے حوالہ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس لیے قرآن پاک اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و عمل کے حوالہ سے اسلامی حکومت کی تین بنیادیں نظر آتی ہیں:(١) حکومت کا قیام عوام کی مرضی سے ہوگا۔

(٢) خلیفہ کو استبدادی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے بلکہ وہ قرآن و سنت کے احکام کا پابند ہوگا۔
(٣) قرآن و سنت کے صریح احکام کے مقابلہ میں عوامی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
اس کے ساتھ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلے خطبہ کا یہ جملہ شامل کر لیا جائے کہ ”اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔” تو اس سے ایک اور اصول بھی اخذ ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور عوام کو حکومت کے احتساب کا حق حاصل ہے۔

ان اصولوں کی وضاحت کے بعد اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خلیفہ کے انتخاب کے طریق کار، حکومتی ڈھانچہ اور عوام کے حق احتساب کو عملی شکل دینے کے تمام امور حالات پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور اس کے لیے ہر دور میں اس وقت کے حالات اور ضروریات کے مطابق کوئی بھی طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ تعامل میں مختلف طرز ہائے حکومت کو عوامی اور علمی حلقوں کی طرف سے جواز کا درجہ اور سند حاصل ہوتی رہی ہے۔ اس کے بعد میں آج کے جدید سیاسی نظام کی طرف آتا ہوں جس کی بنیاد چار اہم اصولوں پر ہے: (١) مذہب اور ریاست کی علیحدگی(٢) عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل (٣) پارلیمنٹ کی مطلق خودمختاری(٤) انسانی حقوق کی پاسداری۔

جہاں تک مذہب اور سیاست میں علیحدگی کی بات ہے، اسلام اس کو تسلیم نہیں کرتا اور قرآن کریم صراحت کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ اللہ تعالی کے اتارے ہوئے فرامین کو بنیاد بنائے بغیر احکام دیے جائیں گے تو وہ گمراہی کا باعث اور جاہلیت کے مترادف ہوں گے، البتہ حکومت کے قیام کے لیے عوام کی رائے کا حق اسلام نے تسلیم کیا ہے، بلکہ آج کے جدید سیاسی نظام کے وجود میں آنے سے ایک ہزار سال قبل عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت تشکیل دے کر اس کو بطور اصول اختیار کیا ہے۔ پارلیمنٹ کا وجود بھی اسلام کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور میں نقابہ اور عرافہ کا تصور اور عریف اور نقیب کا منصب اسی عوامی نمائندگی کی علامت تھے اور وہ اسلام کے سیاسی نظام کا ایک ناگزیر حصہ تصور ہوتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ حنین کے بعد قیدیوں کی واپسی کا فیصلہ متعلقہ لوگوں کی مرضی سے کیا تھا اور ان کی مرضی معلوم کرنے کے لیے ان کے نمائندوں کو ذریعہ بنایا تھا جنہیں ”عریف” کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد روایات کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفاء اور نقباء کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا ہے، چنانچہ ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے آج کے بلدیاتی نظام اور پارلیمنٹری سسٹم کو اس کا متبادل یا اس کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ پارلیمنٹ کی مطلق خودمختاری جسے ”ساورنٹی” سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ محل نظر ہے، کیونکہ اسلامی نظام میں پارلیمنٹ قرآن و سنت کی حدود میں ہی قانون سازی کی مجاز ہوتی ہے، چنانچہ اسے قرآن و سنت کے کسی صریح حکم کو منسوخ یا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا اور اس کی خودمختاری مطلقاً نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایات کے دائرے میں تسلیم کی جائے گی۔

اسی طرح انسانی حقوق کی پاسداری کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے، اس لیے کہ اسلام صرف انسانی حقوق کی بات نہیں کرتا بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری کا ایک مربوط نظام پیش کرتا ہے اور انسانوں کے باہمی حقوق کی عملداری اور نگرانی کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی ادائی کے اہتمام کو بھی ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے، چنانچہ سورة الحج کی آیت نمبر 41 میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حکمرانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب ہم انہیں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة کی ادائی کا اہتمام کرتے ہیں، امر بالمعروف کرتے ہیں اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے ضمن میں تفسیر ابن کثیر میں امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کے ایک خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم حقوق اللہ کے بارے میں بھی تم سے مواخذہ کریں گے اور تمہارے باہمی حقوق کے حوالے سے بھی مواخذہ کریں گے۔ اس لیے ایک مسلم ریاست میں جب حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا اہتمام اور نگرانی حکومت کی ذمہ داری قرار پائے گی تو انسانی حقوق کے موجودہ فلسفہ و نظام پر، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہے، نظرثانی ناگزیر ہو جائے گی۔ کیونکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بنیاد صرف حقوق العباد پر ہے اور اس کے بہت سے قوانین اور ضابطے حقوق اللہ اور وحی الٰہی سے متصادم ہیں۔ اس بنیاد پر اصولی طور پر انسانی حقوق کی پاسداری تو ایک اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، لیکن ایسا حقوق اللہ کے ساتھ توازن کے ساتھ ہوگا اور حقوق اللہ کو نظر انداز کر کے صرف حقوق العباد کی پاسداری یکطرفہ اور نامکمل بات ہوگی۔

تیسری اور آخری قسط:
اِس پس منظر میں جب ہم اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے جدید سیاسی تقاضوں کو اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے لیے اجتہادی ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں اور پاکستان کے علماء کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے صرف نظر نہیں کیا کیونکہ پاکستان کے قیام کے بعد جب علماء کرام کے سامنے ایک نئی اسلامی ریاست کی بنیاد طے کرنے کا مرحلہ آیا تو یہ اجتہادی عمل اور اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع تھا۔ علماء کے سامنے خلافت عثمانیہ کا صرف ربع صدی قبل ختم ہونے والا ڈھانچہ بھی تھا اور سعودی عرب میں اس کے متبادل کے طور پر وجود میں آنے والا حکومتی نظام بھی ان کے پیش نظر تھا، لیکن یہ دونوں جدید دور کے سیاسی تقاضوں اور ضروریات کو پورا کرنے والے نہیں تھے۔ اس لیے علماء پاکستان نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونی والی اس نئی مملکت میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کی شرط کے ساتھ عوام کے ووٹوں سے حکومت کے قیام کا اُصول اختیار کیا جائے، عوام کے منتخب نمائندوں کے لیے اقتدار کا حق تسلیم کیا جائے اور یہ بھی حتمی طور پر طے کر لیا کہ تمام تر قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگی۔ یہی وہ اصول ہیں جن کی طرف علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میں توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ ”قرارداد مقاصد” کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے ١٣ سرکردہ علماء کرام کے ٢٢ دستوری نکات اسی اجتہادی پیشرفت کا ثمرہ ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے علماء کرام نے نظام حکومت کے بارے میں اجتہادی ضروریات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور علامہ اقبال کے تصور اجتہاد کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔

پھر قومی تاریخ کے ایک اور مرحلہ کو بھی اس سلسلے میں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جب1973ء کا دستور تشکیل پارہا تھا، اُس وقت دستور ساز اسمبلی میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء عوام کے منتخب نمائندوں کی صورت میں موجود تھے جن کی مشاورت و اشتراک کے ساتھ دستور تشکیل پایا۔ اس دستور کی نظریاتی حیثیت کا تعین، حکومتی ڈھانچے کی نوعیت کا فیصلہ، آج کے عالمی نظام اور جدید سیاسی تقاضوں کے ساتھ اس کی ایڈجسٹمنٹ کے راستے تلاش کرنا اور ان سب کے ساتھ قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو برقرار رکھنا بہت بڑا اجتہادی عمل تھا۔ جس میں ہمارے علماء کرام پوری طرح سرخرو ہوئے اور ایک ایسا دستور قوم کو فراہم کیا جس پر ملک کے تمام طبقوں کے ساتھ ساتھ روایتی دینی حلقوں کا بھی اتفاق ہے اور جدید سیاسی نظاموں کے ناگزیر تقاضوں کی بھی نفی نہیں ہوتی۔ اسی طرح قادیانیت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھی ملک کے روایتی دینی حلقوں نے اجتہاد سے کام لیا اور اپنے قدیم روایتی موقف پر اصرار کرنے کی بجائے علامہ اقبال کی تجویز کے مطابق قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت کا درجہ دینے پر اکتفا کرلیا، اس لیے کہ جدید سیاسی نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا تقاضا یہی تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں حکومتی ڈھانچے اور دستوری نظام کی تشکیل اور قادیانیوں کی حیثیت طے کرنے کے بارے میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ طور پر جو فیصلے کیے، وہ اسی رخ پر ہوئے ہیں جن کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا تھا، بلکہ ہم نے تو افغانستان میں طالبان کی امارت اسلامیہ قائم ہونے کے بعد وہاں بھی اس بات کے لیے کوشش کی ہے کہ کسی طرح وہاں دستوری حکومت کا کوئی راستہ نکل آئے۔ میں خود ایک دور میں قندھار گیا ہوں، امیرالمومنین ملا محمدعمر سے ان کے دور اقتدار میں ملاقات کی ہے اور اگرچہ ان سے براہ راست اس مسئلہ پر بات نہیں ہوسکی، لیکن ان کی شوریٰ کے ذمہ دار حضرات سے میں نے بات کی۔ میں اپنے ساتھ قرارداد مقاصد، علماء کے ٢٢ دستوری نکات اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کا 1970ء کا انتخابی منشور لے کر گیا تھا اور میں نے انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ علماء پاکستان کی طرح قرآن و سنت کی بالادستی کی شرط کے ساتھ عوامی نمائندگی اور دستوری حکومت کا اہتمام کریں، کیونکہ آج کے دور میں کسی حکومت کے جواز کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے یہ ناگزیر تقاضے ہیں اور چونکہ اس کا تعلق اجتہادی امور سے ہے اور حالات کے مطابق ایسے معاملات میں کوئی بھی مناسب فیصلہ کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، اس لیے انہیں اس مشورہ پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

مگر یہ ہماری بدقسمتی تھی یا حالات کا جبر تھا کہ معاملات کو اس رخ پر لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے برعکس ہمارے ایک اور پڑوسی ملک ایران میں جب مذہبی قیادت برسراقتدار آئی اور ابھی تک برسر اقتدار ہے، اس نے اپنے روایتی موقف کو جدید سیاسی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالا، دستوری حکومت اور عوامی نمائندگی کا اہتمام کیا اور باوجودیکہ اہل تشیع کا امامت کا سسٹم اہل سنت کے خلافت کے سسٹم کی بہ نسبت زیادہ سخت اور تھیاکریسی کے زیادہ قریب ہے، انہوں نے اسے بھی ”ولایت فقیہ” کے عنوان سے دستوری نظام کا حصہ بنا دیا، اس لیے وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

دستور کی حد تک پاکستان میں ہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اگر پاکستان اور ایران کے دساتیر کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو ایک اسلامی حکومت کے بارے میں اہل سنت کے نقطۂ نظر اور اہل تشیع کے نقطۂ نظر کا فرق جدید دستوری زبان اور آج کی سیاسی اصطلاحات میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ایران میں چونکہ حکومتی طبقات اور حکومتی نظام چلانے والے افراد اس کے مطابق تعلیم و تربیت بھی رکھتے ہیں، اس لیے انہیں اس کے مطابق ملک کا نظام چلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی، مگر ہمارے ہاں مقتدر طبقات اور اسٹیبلشمنٹ پاکستان اور اس کے دستور کی نظریاتی بنیاد کے حوالے سے ابھی تک تذبذب اور گومگو کا شکار ہیں بلکہ عوامی دباؤ کے تحت قبول کیے جانے والے اس دستور اور اس کی اسلامی دفعات سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں، اس لیے پاکستان کا دستور اور اس کی اسلامی دفعات قومی زندگی میں عملی پیشرفت کے مواقع سے ابھی تک محروم ہیں۔

گفتگو کے اختتام سے قبل میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ جہاں تک جدید سیاسی نظام کے ناگزیر تقاضوں اور آج کے ورلڈ سسٹم کے تناظر کو سمجھنے اور اس سے ممکنہ طور پر ہم آہنگ ہونے کا تعلق ہے، اس کی اہمیت و ضرورت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی باشعور اہل علم نے کبھی اس سے گریز کیا ہے، لیکن اس کا مطلب اسلام کے اصولوں سے دستبرداری اور قرآن و سنت کی حدود سے تجاوز نہیں ہے۔ اس لیے اجتہاد کا جو تقاضا ہماری ملی اور قومی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اس میں اجتہاد کی گنجائش پائی جاتی ہے، اس کے لیے ضرور کام ہونا چاہیے اور احکام و قوانین کے حوالے سے اس کا وسیع دائرہ موجود ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں روایتی دینی حلقوں اور مراکز کی سست روی کا احساس ہے اور میں انہیں ان تقاضوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے گزشتہ ربع صدی سے بساط بھر کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن اجتہاد کے نام پر مغرب کی پیروی اور اس کے فلسفہ و فکر کو قبول کرنے سے ہمیں قطعی طور پر انکار ہے، اس لیے کہ سیاسی نظام کے حوالے سے ان کی آخری منزل بہرحال ریاست اور مذہب کی علیحدگی ہے جس کے لیے مغرب ہم پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے، مگر ہمارے لیے وہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور اقبال نے بھی یہ کہہ کر ہمیں اسی بات کی تلقین کی ہے کہ … جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!