استنبول مذاکرات ،امن کے لیے مؤثر حکمت عملی ناگزیر ہے

ترکیہ کی وزرات خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق ہوگیاہے ۔دونوں پڑوسی ملکوں کے اعلیٰ حکام نے امن مذاکرات میںاس پیش رفت کی تصدیق کی ہے ۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان یہ مذاکرات، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں منعقد ہوئے دو پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ایک ایسا ملک جس نے دوسرے ملک سے آئے ہوئے لاکھوں مہمانوں کی چالیس برس سے زائدمدت تک مہمان نوازی کی ہو، صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی مہمان نوازی کا صلہ اس پر دہشت گرد چھوڑ کر نہ دیا جائے ۔

اطلاعات کے مطابق فریقین نے جنگ بندی کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے اورچھ نومبر سے استنبول میں آئندہ ملاقات میں اس کے نفاذ کے قواعد و ضوابط طے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک مشترکہ نگرانی اور تصدیق کا نظام تشکیل دینے کا بھی فیصلہ ہوا ہے جو خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار فریق پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے واضح کیا کہ پاکستان کو اب ایک نیا فورم میسر ہوگا جہاں دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے جائیں گے اور امید ظاہر کی ہے کہ دہشت گرد کارروائیاں بند ہوں گی۔یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر منتج نہیں ہوئے ہیں۔ فی الوقت معاملہ مکمل امن یا ایک بھرپور جنگ کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر افغانستان سے ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا۔پاکستان کے اعلیٰ حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں افغان عبوری حکومت کے رویے اور طرز عمل پر گہرے شکوک و شبہات ہیںجیسا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پناہ گزین قرار دینے کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی قبائلی عمائدین کے جرگے میںملک کی سرزمین کے بھرپور دفاع اور دہشت گردوں کو بہر صورت کچل ڈالنے کے عزم کا اعادہ کیا۔پاک افواج اس وقت مشرقی و مغربی سرحدوں اور سمندر میں پوری طرح الرٹ ہیں اورامن مذاکرات کے باوجود ملک حالت جنگ میں دکھائی دیتاہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان مذاکرات میں پاکستان کا بنیادی اور غیر متزلزل مطالبہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا اور فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہند (بی ایل اے) جیسے گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کرنا رہا ہے۔پاکستان کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت پر لازم ہے کہ وہ ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے، اسلامی ریاست کے اصولوں کی روشنی میں، اپنی سرزمین کو کسی بھی طرح پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ ہمسایہ ملک کی خودمختاری اور سلامتی کا مکمل احترام کیا جائے۔ پاکستان نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اس شرط کے ساتھ رضامندی ظاہر کی ہے کہ اگر افغانستان سے حملے نہیں ہوتے، تو ہی یہ مذاکرات کامیابی کی طرف جائیں گے۔ اس عبوری سمجھوتے کی صورت میں اب پاکستان کے پاس ایک قانونی و اخلاقی پلیٹ فارم موجودہے جہاں خلاف ورزی کی صورت میں دلیل اور شواہد کی بنیاد پر بات کی جا سکتی ہے۔اس تمام تناظر کی وجہ سے تجزیہ کار مذاکرات کے اس پہلو کو پاکستان کی سفارتی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں ۔

مفاہمت کی صورت میں، یعنی جب فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے تو اس کی پاس داری لازم ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اے ایمان والو! معاہدوں کو پورا کرو ۔ اس معاہدے کو مضبوط بنانے کے لیے، پاکستان کو چاہیے کہ وہ دراندازی اور دہشت گردی کے ثبوتوں کو منظم اور جدید ترین انداز میں محفوظ رکھے۔ ان ثبوتوں کو منطقی اور مؤثر انداز میں متعلقہ فورم پر پیش کیا جائے۔ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے داخلی سطح پر انسداد دہشت گردی کی مربوط کوششیں جار ی رکھی جائیں۔ حالیہ دنوں میں باجوڑ اور مہمند میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں خارجی دہشت گردوں کی ہلاکتیں، جن میں ایک مطلوب کمانڈر بھی شامل تھا، اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں مسلسل دراندازی کی جارہی ہے ۔ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت افغانستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے کنٹرول کو مضبوط بنائے تاکہ کوئی بھی غیر ریاستی عنصر امن کو سبوتاژ نہ کر سکے۔اگر طالبان حکومت یہ کام نہیں کرسکتی تو بتدریج وہ کابل پر حکمرانی کے جواز سے منطقی طورپر محروم ہوتی چلی جائے گی۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان مشروط اور عارضی جنگ بندی ہوئی ہے۔ایسے میں کوئی بھی سازش یا ایڈونچر اس جنگ بندی کو ختم کرسکتاہے لیکن دونوں ملک امن ،صلح اور بقائے باہمی کو ترجیح دیں تو جنگ کے خطرات دور بھی کیے جاسکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام قضیے میں اصولی، منطقی اور عدل و انصاف پر مشتمل موقف کس کا ہے ؟۔ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ خلاف وزری کی صورت میں جواب دینے کوہی ترجیح دے گا اورکسی بھی ملک ،گروہ یا فریق سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔

یہ ایک اصولی بات ہے کہ پاکستان کو اپنی قومی سلامتی اور بنیادی اصولوں پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔اس تناظر میں آئندہ کے مذاکرات میں کامیابی کے امکانات فریق مخالف کے رویے پر منحصر ہیں۔ ثالث ممالک ان مذاکرات کو یقینا کامیاب بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں کچھ معاملات کو بڑی وضاحت کے ساتھ طے کروانا چاہیے۔پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کے لیے ایک مضبوط ٹائم لائن اور عمل درآمد کا فریم ورک یقینی بنانا ہوگا تاکہ یہ عبوری جنگ بندی پائیدار امن کی بنیاد بن سکے۔استنبول میں ہونے والی یہ پیش رفت، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ممکن ہوئی، ایک لمحے کے لیے خطے میں امن کی امید پیدا کرتی ہے۔ امن کی طرف اٹھایا گیا ہر قدم قابل ستائش ہے، لیکن خلوصِ نیت کا اصل امتحان آئندہ آنے والے دنوں میں ہوگا، جب معاہدے پر عمل درآمد کی باری آئے گی۔ایک طرف بھارت کی جنگی تیاریاں اور دوسری جانب طالبان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات معاملات کی سنگینی کی خبر دے رہے ہیں۔ان حالات میں امن کی بہترین ضمانت خود اپنے دفاع کی صلاحیت میں مضمر ہے۔