امن کی بجائے انتشار کو ترجیح دینا افسوسناک ہے!

وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول مذاکرات ناکام ہونے کا اعلان کردیا۔ چار روزہ مذاکرات کے بعد وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بات چیت میں قابل عمل حل نہیں نکالا جاسکا۔ انہوں نے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے پر قطر اور ترکیہ سے اظہار تشکر کیا اور اس بات پر بھی دونوں ممالک کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے افغان طالبان حکومت کو دہشت گرد پراکیسز پاکستان کیخلاف استعمال کرنے سے باز رکھنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی۔ عطا تارڑ نے کہا کہ طالبان نے شواہد کے باوجود سرحد پار دہشت گردی روکنے کی کوئی ضمانت نہ دی، پاکستان دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو ختم کرنے کیلئے کارروائیاں جاری رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا واحد ایجنڈا پاکستان پر افغان سرزمین سے حملوں کو رکوانا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

آخرکار وہ ناخوشگوار واقعہ ہوکر رہا، جس کے واقع نہ ہونے کی دعائیں کی جا رہی تھیں اورجس کی توقع تھی اور نہ ہی دشمن کے سوا کسی کو اس کی تمنا تھی۔ حالانکہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا۔ ایک سادہ اور دو جمع دو کی طرح واضح بات تھی۔ ایک شکایت تھی اور صرف ایک ہی مطالبہ تھا۔ امید تھی کہ کسی نہ کسی سطح پر جاکر دل بڑا کرکے شکایت دور کرنے کی بات کی جائے گی اور اکلوتا مطالبہ پورا کیا جائے گا۔ دعائیں بھی کی جا رہی تھیں کہ خوش اسلوبی سے شکوہ شکایت ختم ہو، ایک چھوٹا سا مطالبہ ہی ہے، اسے پورا کردیا جائے اور دونوں ملک اور دونوں اقوام امن و استحکام کے سائے میں اپنی دوسری مشکلات اور مسائل سے لڑنے کیلئے یکسو ہوجائیں۔ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے، اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق رکھتا ہے اور اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا تقاضا تھا اور ہے کہ افغانستان سے اس کی پشت پر بلاوجہ خنجر گھونپنے کا سلسلہ روک دیا جائے۔ دہشت گردوں کو پاکستان پر حملوں کیلئے محفوظ ٹھکانے فراہم نہ کیے جائیں۔ پہلے دوحہ میں اور اس کے بعد استنبول میں مسلسل چار روزہ مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے یہی ایک بات کی گئی مگر بدقسمتی سے اس کی یہ جائز اور معقول بات نہیں سنی گئی اور حسب روایت ڈھٹائی سے کام لیکر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ افغان طالبان نے ٹھوس شواہد پیش کیے جانے کے باوجود سرحد پار دہشت گردی روکنے کی کوئی ضمانت یا عملی منصوبہ پیش نہیں کیا اور مذاکرات ناکام قرار پائے۔

پاکستان کا مطالبہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ اس کی سرزمین پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی، تیاری اور کارروائیاں افغان سرزمین سے کی جا رہی ہیں اور ان خونریز سرگرمیوں کو روکا جائے۔ یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں۔ پاکستان اگر یہ الزام یا دعویٰ کرتا ہے تو افغانستان کے سامنے دو ہی راستے ہیں، پاکستان سے ثبوت طلب کرے، ثبوت اگر موجود ہیں تو پاکستان کا مطالبہ پورے کرے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال ہونے سے روکے۔ یہی ایک ذمے دار ملک اور قوم کا فرض ہے اور اسی طرح اگر کسی ملک کیخلاف دوسرے ملک کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو اس کی روک تھام اور انسداد کیلئے حساس ہونا اور کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا اس کا حق اور اختیار ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس جائز شکایت اور مطالبے کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور پاکستان سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ کچھ نہ کرے، کچھ نہ کہے ورنہ جنگ ہوجائے گی۔ یہ کھلم کھلا جارحیت، دھونس اور مکمل طور پر ناقابل قبول طرز عمل ہے۔ پاکستان نے ایک پڑوسی ہونے کے ناتے تاریخ میں کبھی افغانستان کا برا نہیں چاہا، جبکہ اس کے برعکس افغانستان نے پہلے دن سے پاکستان کے تئیں معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ کابل میں کوئی بھی حکومت آتی ہے تو اس کی نفرت، عداوت اور منفی پالیسیوں کا پہلا نشانہ پاکستان بنتا ہے۔پاکستان افغان حکومتوں کا یہ منفی طرز عمل اپنے قیام کے پہلے دن سے سہتا چلا آرہا ہے، مگر کب تک؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف سے مسلسل دشمنی کا رویہ ملے اور دوسری طرف سے صرف پھول ہی پیش ہوتے رہیں۔

2021میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان کو نشانہ بنانے کا یہ سلسلہ روک دیا جائے گا اور نئی حکومت جنگ کی معیشت کو پروان چڑھانے کی بجائے حقیقی معاشی و اقتصادی عوامل کو بروئے کار لائے گی اور اپنے ملک کی تعمیر نو اور ترقی پر ہی توجہ مرکوز کرے گی۔ اس میں نہ صرف افغانستان کی بھلائی تھی بلکہ پاکستان اور پورے خطے کو اس سے فائدہ متوقع تھا، مگر بدقسمتی سے طالبان حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور پاکستان پر حملے کرنے والے گروہوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ پاکستان نے مناسب انداز میں اس کی شکایت کی۔ وفود بھیجے۔ سفارتی سطح پر معاملہ اٹھایا۔ خطے کے ممالک تک کو درمیان میں ڈالا مگر بدقسمتی سے طالبان حکومت نے پاکستان کا مقدمہ سمجھنے اور اس کی جائز شکایت دور کرنے پر کوئی توجہ نہ دی اور پاکستان کی بجائے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں سے اپنے تعلقات کو بچانے کو ہی ترجیح دی۔ معاملہ جب حد سے گزر گیا اور پاکستان نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق حملوں کا آغاز کیا تو بات کھلی جنگ تک چلی گئی مگر اس سارے فساد کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کا موقف دوحہ اور استنبول مذاکرات کے ذریعے دنیا کے سامنے آگیا۔

استنبول کی مذاکرات کی میز پر یہ توقع تھی کہ ایک پڑوسی اور برادر ملک مسئلے کی سنگینی کو سمجھے گا اور دہشت گرد گروہوں کو اپنے علاقے سے ختم کروانے میں تعاون کرے گا۔ چار دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران امید بندھتی اور ٹوٹتی رہی، تاہم انجام طالبان کی جانب سے الٹا الزام تراشی، ٹال مٹول اور حیلے بہانوں کی بنا پر مذاکرات اور مسئلے کے پر امن حل کی ناکامی کی صورت میں ہی برآمد ہوا اور یہ بات دنیا پر واضح ہوگئی کہ پاکستان امن و استحکام چاہتا ہے جبکہ موجودہ افغان حکومت اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح انتشار، فساد اور قتل و خون کو ہی بڑھاوا دینا چاہتی ہے، جو حد درجے افسوسناک ہے۔ یہ ایک اہم موقع تھا، ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں اس مسئلے کا باوقار حل نکالا جا سکتا تھا مگر وقت نے پھر ثابت کردیا کہ بے تدبیری، کھوکھلی جذباتیت، دوغلے پن، بدنیتی اور گھمنڈ کی کوکھ سے کسی خیر اور مثبت پیشرفت کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ اب بھی موقع ہے کہ طالبان حکومت اپنے رویے پر نظر ثانی کرے، ورنہ معاملات مزید ابتری، کشیدگی، تناؤ اور خونریزی کی طرف جائیں گے، جس کا سارا نقصان بے گناہ عوام کو ہوگا۔