(حصہ نہم)
نوٹ: ہم نے ”چند سبق آموز احادیث” کے عنوان سے آٹھ اقساط پہلے شائع کی ہیں، آج کا کالم اسی کا تسلسل ہے۔
قرآن وحدیث میں صغیرہ وکبیرہ گناہوں کا تصور موجود ہے اور احادیثِ مبارکہ میں کئی گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے، مگر دینی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کسی گناہ کو حقیر نہ سمجھو، ورنہ اس کے ارتکاب پر جری ہوجائو گے اور کسی نیکی کو بڑا نہ سمجھو، ورنہ اس پر اترانے لگو گے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! معمولی سمجھے جانے والے گناہوں سے بچے رہو، یقینا اُن کی بابت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور باز پرس ہوگی، (مسند احمد: 24415)”۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ایک اپنی طرف سے دو حدیثیں بیان کیں: ”بے شک مؤمن اپنے گناہوں کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اوراُسے لگے کہ پہاڑ اس پر گرنے والا ہے (یعنی وہ گناہ کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے) اور فاجر اپنے گناہوں کو اس قدر (حقیر) سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کی ناک پر بیٹھی ہے اور وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے اُسے اڑادے گا، (بخاری: 6308)”۔ الغرض گناہوں کا صغیرہ اور کبیرہ ہونا احکام اور اُن پر مرتب ہونے والے نتائج کے اعتبار سے ہے، ورنہ ہر گناہ اپنی جگہ عظیم ہے اور اس سے بچتے رہنا چاہیے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں: ”تم ایسے کام کرتے ہو کہ جو تمہاری نظروں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انھیں معمولی سمجھتے ہو)، حالانکہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان کاموں کو مُہلک (ہلاک کردینے والے) سمجھتے تھے، (بخاری: 6492)”۔ شیطان انسان کو بہکانے کے لیے کسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے، وہ اُن کے سامنے ان بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کر کے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے، بظاہر سلجھے ہوئے لوگ بھی اس کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر شیطان کے ہتھکنڈوں سے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا: سنو! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے ملک میں اب کبھی اُس کی عبادت کی جائے گی، البتہ اس سے مایوس نہیں ہوا کہ اُن برائیوں میں اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم معمولی سمجھتے ہو۔
راستے کے حق کو فقہی اصطلاح میں ”حَقُّ الْمُرُوْر” کہتے ہیں، یعنی کسی کو عام گزر گاہ پہ دوسروں کا راستہ روکنے کا حق نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راستوں پر نہ بیٹھو، صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمیں بیٹھنے سے چارہ نہیں، ہم یہیں بیٹھ کر آپس میں بات کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر راستے کا حق ادا کرو، صحابۂ کرام نے پوچھا: یارسول اللہ! راستے کا حق کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظریں نیچی رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے، (بخاری:2465)”۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ”ایمان کے ساٹھ اور کچھ یا ستّر اور کچھ شعبے ہیں، اُن میں سے سب سے افضل کلمۂ لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب سے معمولی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے، (مسلم: 35)”، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے تین کاموں سے بچو جو لعنت کا سبب بنتے ہیں: ایک پانی کے گھاٹ پر، دوسرا راستے میں اور تیسرا سائے کی جگہ (جہاں مسافر کچھ دیر سَستانے کے لیے بیٹھتے ہیں) بول وبراز کرنا، (ابودائود: 26)”، یعنی جو کوئی بھی ان مقامات پر نجاست دیکھے گا تو وہ ایسا کرنے والے پر لعنت ہی کرے گا۔
آج کل احتجاجی جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کی وجہ سے راستے بند ہوجاتے ہیں اور لوگوں کے لیے شدید اذیت کا باعث بنتے ہیں، گھنٹوں ٹریفک رک جاتی ہے، بعض قریب المرگ مریضوں کا ایمبولینس میں انتقال ہو جاتا ہے، بعض اوقات زچگی کے عالَم میں راستے یا گاڑیوں میں کسی خاتون کے بچے کی ولادت ہوجاتی ہے، اس میں مذہبی اور سیکولر لبرل سب شامل ہیں۔ لازم ہے کہ قومی اتفاقِ رائے سے اس کے لیے کوئی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ ہو یہ رہا ہے کہ اپنی باری پر ہر ایک ان کاموں کے لیے جواز پیش کرتاہے اور اگر اس کا فریقِ مخالف یہی کام کرے تو اُس پر طعن کرتا ہے، ملامت کرتا ہے اور تبصرے کرتا ہے۔ قوانین اور قواعد وضوابط ایسے ہونے چاہییں جو سب پر یکساں لاگو ہوں، یہ نہیں کہ ایک جماعت کرے تو ٹھیک ہے اور دوسری کرے تو غلط ہے، غلط ہر صورت میں غلط ہے اور صحیح ہر صورت میں صحیح ہے، الغرض اس کے لیے ایک قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ”حضرت مُعاذ بن انَس بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوا تو لوگوں نے پڑائو کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے بند کردیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو لوگوں میں اعلان کرانے کے لیے بھیجا کہ جس نے پڑائو کی جگہیں تنگ کردیں یا راستے کو بند کردیا تو اس کا جہاد نہیں ہے، (ابودائود: 2629)”، یہ کتنی بڑی وعید ہے کہ ایسا کرنے والا جہاد کے ثمرات سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: (١) کوڑے کا ڈھیر، (٢) مذبح، (٣) مقبرہ (کہ قبر کی طرف سجدہ ہونے کی صورت میں بت پرستی کے مشابہ ہوگا)، (٤) شارعِ عام (کہ لوگوں کے لیے اذیت کا سبب بنے گا)، (٥) حمّام (٦) اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ (کہ نماز کی تقدیس کے منافی ہے)، (٧) بیت اللہ کی چھت پر (کہ خلافِ ادب ہے)، (ترمذی: 346)”۔ بارش کے سبب یا جگہ دستیاب نہ ہونے کے سبب یا باہر کیچڑ یا نجاست کے سبب مسجد میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، لیکن شارعِ عام پر پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کہ عامّة الناس کے لیے حرج کا سبب بنتا ہے۔ پس جب نماز کے لیے شارعِ عام کو روکنا جائز نہیں ہے تو شادی بیاہ اور تقریبات کے لیے کیسے جائز ہوگا۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ہر آبادی میں اس طرح کی تقریبات کے لیے جگہیں مختص کرے تاکہ عام زندگی کے معمولات میں حرج واقع نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص راستے میں جا رہا تھا کہ اس نے کانٹے دار ٹہنی راستے میں دیکھی تو اسے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اُس کے اس فعل کو اتنا پسند فرمایا کہ اس کو بخش دیا (کیونکہ اس نے اللہ کے بندوں کے لیے تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دیا)، (ترمذی: 1958)”۔ اسی طرح راستے میں پھلوں سبزیوں وغیرہ کے ریڑھے اور ٹھیلے لگا دینا بھی راہگیروں کے لیے اذیت کا باعث ہے اور پیدل چلنے والوں کے لیے جو فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں، ان کو بھی روکنا قانوناً اور شرعاً جائز نہیں ہے، امام غزالی اپنے عہد کے اعتبار سے لکھتے ہیں:
”پس عام منکَرات میں سے نجی ملکیتی عمارتوں سے متصل ستون اور چبوترے بنانا، درخت لگانا، بالکونی اور چھجوںکو باہر نکالنا، سڑکوں پر لکڑیاں، اناج اور کھانے پینے کی چیزیں رکھنا، اگراس سے راستے تنگ ہوتے ہوں اور گزرنے والوں کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یہ سب ناجائز ہیں اور اگر راستہ کشادہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ نہ ہوتوپھرمنع نہیں ہے۔ نیزگھروں تک پہنچانے کے لیے (عارضی طور پر) لکڑیوں اور کھانے پینے کی چیزوں کا رکھنا ایسا امر ہے جس کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اور اس سے منع کرنا ممکن نہیں ہے۔ جانوروں کو سڑک پر اس طرح باندھنا کہ اس سے راستہ تنگ ہو، راہگیروں کو ناپاک کردے، ناجائز ہے، اس سے منع کرنا واجب ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ راستے پر سب کا حق برابر ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو ضرورت کے سوا اپنے لیے مختص کر دے۔ چراگاہ وہ ضرورت ہے جس کے لیے عام طور پر لوگ دیگر ضروریات کے برعکس سڑکوں پر جاتے ہیں اور سڑکوں پر جانوروں کو لے جانا، جبکہ ان پر کانٹے ہوں جو لوگوں کے کپڑوں کو پھاڑ دیتے ہیں، تو یہ ناجائز ہے، اگر ان کو جمع کرنا اور باندھنا ممکن ہو کہ اس سے نقصان نہ ہو یا اگر ان کو کسی کشادہ جگہ پر منتقل کرنا ممکن ہو تو صحیح، ورنہ منع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ شہر کے سب لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں! ان کو منتقل ہونے کی مدت کے سوا سڑکوں پر نہیں چھوڑا جائے گا، (اِحیائُ علومِ الدِّین، تلخیص، ج: 2، ص: 339)”۔

