نئی نسل ہنر سیکھنے پر توجہ دے

وہ انتہائی غریب تھا۔ اس نے زندگی کی سختیاں جھیلیں۔ خاندان میں بڑا ہونے کی وجہ سے غم اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ بعض اوقات حالات اتنے خراب ہو جاتے کہ اس کمزور جان کے اعصاب پہ بھاری پڑ جاتے۔ آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ لوگ پہچان جاتے لیکن یہ انہیں پی جاتا اور آنکھوں کے کٹوروں سے باہر نہ آنے دیتا۔ کتنی دفعہ فیس ادا کرنے کو بھی پیسے نہ ہوتے لیکن آخرکار یہ کامیاب ہوگیا۔ حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کیا۔ وقت کا پہیا چلتا رہا اور یہ مسکراتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ وسائل کی کمیابی، غربت اور کم عمری اس کا راستہ نہ روک سکیں۔ آخرکار و ہ کامیاب ہوگیا۔ حالات کی گردش ختم ہونے لگی، اطراف سنبھلنے لگے۔ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔ وہ چاہتا تو کچھ عرصے کے لیے بڑی آسانی سے اپنی محرومیوں کے بدلے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکتا تھا۔ وہ چاہتا تو آسانی سے دنیا کا شکوہ کرتا، لیکن اس نے اپنی انہی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیا۔ یہ ”الہامی بے اطمینانی” کی قوت ہے۔ جب آپ اپنے ردِعمل کو مثبت چارج دے کے دنیا پہ چھا جانے کا عزم کرلیتے ہیںتو کرامات برپا ہونے لگتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے غریب لوگوں میں جستجو زیادہ پائی جاتی ہے۔ والٹیئر نے کہا تھا: میں نے ہمیشہ عظیم لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھا ہے۔ فرق کیا ہے ایک عام آدمی اور ان میں؟ انہوں نے کبھی اپنے حالات کا رونا نہیں رویا۔ کبھی افسوس میں وقت ضائع نہیں کیا۔ ہمیشہ مثبت رہے، پُراُمید رہے، بالآخر دنیا نے ان کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔

دین اسلام نے بھی مہارت سیکھنے، اسکلز پر توجہ دینے اور نت نئے فنون جاننے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سست، کاہل اور بے کار لوگ نہ دین کے لیے فائدہ مند ہیں، نہ ہی دنیا کے لیے۔ اس لیے معاشروں میں لوگوں کی قدر ان کے پاس موجود مہارتوں کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ جیسی اور جتنی مہارتیں، اتنا ہی قیمتی نوجوان، خاندان اور معاشرہ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، ایک نوجوان ادھر سے گزرتا ہے۔ صحابہ کی اس پر نظر پڑتی ہے اور اس کی توانائی اور چستی سب کو حیران کر دیتی ہے۔ صحابہ کرام کہہ اٹھتے ہیں: کاش یہ جوانی اللہ کے رستے میں خرچ ہوتی؟! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: اگر یہ نوجوان اپنے چھوٹے بچوں کے لیے رزق کمانے نکلا ہے تو بھی اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے بوڑھے والدین کے لیے محنت مشقت کرنے نکلا ہے تو بھی اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے آپ کو فقرو فاقہ سے بچانے کے لیے نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ اس لیے نکلا ہے تاکہ ریا اور فخر کرے تو اس کی محنت طاغوت کے رستے میں ہوگی۔اسی طرح حضرت وہب بن منبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے: ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس اپنے ساتھیوں سے بات چیت میں مصروف تھے کہ اس دوران ایک شخص آپ کے پاس آبیٹھا۔ آپ نے اس سے کہا: میرے پاس آجائیں۔ اس شخص نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے! مجھے اتنے عمدہ انداز سے سوال کرنا نہیں آتا، جس طرح ان لوگوں نے سوال پوچھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: قریب آجائیں، میں آپ کو قرآن مجید میں مذکور انبیائے کرام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں تمہیں آدم علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے بندے تھے۔ نوح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک بڑھئی تھے۔ ادریس علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک درزی تھے۔ داؤد علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ذرہ بنانے کے ماہر تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ چرواہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ صالح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ تاجر تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صنعت و حرفت کی کتنی اہمیت بیان کی ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے لگائیے: کسی شخص نے کبھی بھی اس سے اچھا کھانا نہیں کھایا، جو وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے۔ بے شک! اللہ کے نبی داود علیہ السلام بھی ہاتھ سے کماکر کھاتے تھے۔ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اللہ کے نبی! سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز و درست تجارت۔ حضرت عمر فرماتے ہیں: جب میں کسی ایسے صحت مند نوجوان کو دیکھتا ہوں جس کی جوانی مجھے متاثر کر دے، تو میں پوچھتا ہوں: کیا اسے کوئی مہارت بھی آتی ہے؟ اگر لوگ کہیں کہ نہیں۔ تو وہ نوجوان میری آنکھوں سے گر جاتا ہے۔

گویا اسلام محنت، ہنر اور فن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور سستی، کاہلی، بے ہنری اور بے عملی اس کی نظر میں پسندیدہ امر نہیں ہے۔ جدیدمغربی فکر میں محنت پر سرمائے کو فوقیت حاصل ہے۔ اسلام سرمائے کی اہمیت کی نفی نہیں کرتا تاہم وہ محنت کی عظمت کا علم بلند رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ہنر اور مہارتیں سیکھنے پر توجہ دیں تاکہ وہ معاشرے کے مفید اور کارگر افراد بن سکیں۔