سابق امام مسجد نبوی شیخ حذیفی کا یادگار خطبہ اور آج کے حالات

سنہ 1997-8ء میں اس وقت کے امامِ حرم مدنی شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی نے اس دور کے حالات کی مناسبت سے خطبہ جمعہ میں ایسی باتیں کیں اور آوازِ حق بلند کی جو حکمرانوں کو پسند نہیں آئی اور انہیں اس کی پاداش میں منصب سے سبکدوشی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس خطاب میں چونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمانی کی گئی تھی اس لیے یہ بیان پورے عالم اسلام میں عرصے تک گونجتا رہا۔ میں نے انہی دنوں اس پر اپنا تبصرہ مضمون کی صورت میں لکھا تھا، آج حالات کی مناسبت سے یہ مضمون ایک بار پھر نذر قارئین کیا جا رہا ہے:

”مولانا منظور احمد چنیوٹی راوی ہیں کہ 1974 کی تحریک ختم نبوت کے دوران وہ سعودی عرب میں تھے اور رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے قادیانیت کے بارے میں قائم کیے گئے گروپ کے ساتھ مصروف کار تھے۔ اس دوران حرمین شریفین کے ایک بزرگ امام محترم سے ان کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے امام صاحب سے استدعا کی کہ وہ جمعہ المبارک کے خطبہ میں پاکستان کی تحریک ختم نبوت کا تذکرہ کر کے قادیانیت کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرما دیں۔ امام محترم نے جواب دیا کہ انہیں اس سلسلہ میں متعلقہ حکام سے اجازت لینا پڑے گی۔ مولانا چنیوٹی نے کہا کہ چلو خطبہ جمعہ نہ سہی دعا میں ہی ذکر کر دیں اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اسلامیان پاکستان کی کامیابی کے لیے دعا فرما دیں، جواب ملا کہ اس کے لیے بھی متعلقہ حکام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

یہ شخصی یا خاندانی حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے کہ شخصیت یا خاندان کے مفادات اور وقار کو پورے نظام میں محور کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور کسی بے ضرر بلکہ مفید بات کے لیے بھی بعض چہروں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنا ضروری سمجھا جانے لگتا ہے۔ 1992ء میں سعودی عرب کے سینکڑوں سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے ”مذکرة النصیحہ” (خیر خواہی کی یادداشت) کے نام سے ایک عرضداشت بادشاہ معظم کے حضور پیش کی جس میں حکومت کی مختلف پالیسیوں بالخصوص خلیج میں امریکی افواج کی موجودگی، ملک میں سودی نظام و معیشت کے تسلسل، اور شرعی عدالتوں کے دائرہ کار اور اختیارات کو بتدریج محدود کرنے کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے ان پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور شریعت اسلامیہ کے مطابق عوام کے شرعی اور شہری حقوق کی بحالی پر زور دیا گیا۔ اس عرضداشت پر دستخط کرنے والے سینکڑوں علماء اور دانشوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سے جلاوطن کر دیے گئے۔ ان میں سے دو بڑے علمائے کرام الشیخ سفر الحوالی اور الشیخ سلمان العودہ ابھی تک زیر حراست ہیں اور دو ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد المسعری اور ڈاکٹر سعد الفقیہ اپنے دیگر رفقاء سمیت لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ عالم اسلام کے عظیم مجاہد الشیخ مجاہد اسامہ بن لادن اسی قسم کی جرات رندانہ کی پاداش میں افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں ”خانہ بدوشی” کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس ”خیر خواہی کی عرضداشت” کے جواب میں علماء کے سرکاری کیمپ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بادشاہ معظم کی پالیسیوں پر اس طرح کھلم کھلا تنقید کرنا اور اس حوالہ سے لوگوں کا ذہن تیار کرنا درست طرز عمل نہیں ہے اور ان سرکاری علماء کے بقول شریعت اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک درست طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو شرعی نقطہ نظر سے حکومت کی کسی پالیسی پر اعتراض ہو تو وہ اسے مخفی طور پر تنہائی میں باوقار طریقہ سے متعلقہ حکام کے گوش گزار کر دے۔ بس اس کی ذمہ دار صرف اتنی ہے اور ایسا کر کے وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے گا۔

اس پس منظر میں مدینہ منورہ کے محترم عالم دین اور مسجد نبوی علیٰ صاحبہا التحیہ والسلام کے امام الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی کے ایک خطبہ جمعہ کی آڈیو کیسٹ سننے کا اتفاق ہوا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے بعض اہم اور نازک مسائل پر عالم اسلام کے دینی حلقوں کی بے باک ترجمانی کا راستہ اختیار کیا ہے اور روایتی طریق کار سے ہٹ کر عالم اسلام کے زندہ مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ یہ کیسٹ مدینہ منورہ سے آنے والے ایک دوست نے ہمیں مرحمت فرمائی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ الشیخ علی الحذیفی نے یہ خطبہ ذیقعد 1418ھ کے پہلے جمعہ المبارک کو مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا جبکہ ایران کے سابق صدر جناب رفسنجانی بھی مدینہ منورہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور جمعہ المبارک کے اجتماع میں شریک تھے۔ مگر مذکورہ روایت کے مطابق وہ خطبہ کے دوران ہی اٹھ کر اپنے محافظین کے ہمراہ واپس چلے گئے۔

الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی اپنے علم و فضل اور نیکی و تقویٰ کے حوالہ سے عالم اسلام کی معروف شخصیت ہیں اور قرآن کریم کی قرات میں ان کا سوز و گداز بطور خاص لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں ان کی عقیدت و محبت ابھارنے کا باعث ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں کسی نماز کی ادائیگی ایک مسلمان کے لیے بذات خود بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے، لیکن راقم الحروف نے اس بات کا کئی بار مشاہدہ کیا ہے کہ کسی جہری نماز کی تکبیر تحریمہ میں الشیخ علی الحذیفی کی آواز سن کر نمازیوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں کہ آج ان کی زبان سے قرآن کریم سن کر نماز کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ خود راقم الحروف بھی ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہے، کئی نمازیں ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کر چکا ہے اور آئندہ بھی اس سعادت کے بار بار حصول کا امیدوار ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مصر کے الشیخ محمود خلیل الحصری کے بعد اگر کسی قاری کی تلاوت قرآن کریم نے متاثر کیا ہے اور دل کی بے حس تاروں کو حرکت دی ہے تو وہ یہی الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں حفظ و امان میں رکھے اور ہر قسم کی ابتلا و آزمائش میں استقامت اور سرخروئی نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

شیخ حذیفی نے مذکورہ خطبہ جمعہ میں اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے طرز عمل کو موضوع بحث بنایا ہے اور کہا ہے کہ خلیج عرب میں امریکا اور اس کے حواری ممالک کی افواج کی موجودی کے بنیادی اہداف چھ ہیں: اسرائیل کا تحفظ، ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی راہ ہموار کرنا، مشرق وسطیٰ پر فوجی تسلط، عربوں کی دولت کا استحصال، اسلام کی دعوت کا راستہ روکنا، اسلامی اقدار اور تہذیب کا خاتمہ۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو خلیجی ممالک میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اس لیے امریکا اس پر بطور خاص نظریں جمائے ہوئے ہے اور مغربی طاقتیں سعودی عرب کی سالمیت و وحدت کو نقصان پہنچانے اور اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے عربوں کے موجودہ المیہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد بڑی طاقتوں نے عربوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کر دیا اور قومیتوں کے نام پر آپس میں الجھا دیا۔ پھر ان میں سے بہت سے ممالک میں فوجی انقلابوں کے ذریعے شخصی حکومتیں مسلط ہوئیں اور اسلام کی بجائے قوم پرستی، سوشلزم اور علاقائیت کو فروغ دیا گیا۔ بلکہ بعض ممالک میں اسلامی اقدار و روایات کو جبرًا ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی اور اسلامی اجتماعیت کے مختلف مظاہر حتیٰ کہ نماز باجماعت کی ادائی کا اہتمام بھی مشکل بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں نے مسلم ممالک پر تسلط کے دوران سب سے بڑا کام یہ کیا کہ محاکم شرعیہ کو ختم کر کے غیر اسلامی قوانین نافذ کر دیے۔ ان میں سے صرف سعودی عرب ابھی تک محفوظ ہے کہ وہاں شرعی عدالتوں کا نظام موجود ہے اور لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامی کے مطابق ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)